بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

حٰمٓ ۚ﴿۱﴾

۱۔ حا، میم۔

تَنۡزِیۡلُ الۡکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ﴿۲﴾

۲۔ اس کتاب کا نزول بڑے غالب آنے والے، حکمت والے اللہ کی طرف سے ہے۔

مَا خَلَقۡنَا السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَاۤ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا عَمَّاۤ اُنۡذِرُوۡا مُعۡرِضُوۡنَ﴿۳﴾

۳۔ ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے کو برحق اور ایک معینہ مدت کے لیے پیدا کیا ہے اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیں وہ اس چیز سے منہ موڑے ہوئے ہیں جس کی انہیں تنبیہ کی گئی تھی۔

3۔ یہ کائنات ایک مقصد کے تحت اور ایک خاص مدت تک کے لیے بنی ہے۔ یعنی جس دن اس کائنات کا خاتمہ ہو جائے گا وہ قیامت کا دن ہو گا۔

قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ مَّا تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقُوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ اَمۡ لَہُمۡ شِرۡکٌ فِی السَّمٰوٰتِ ؕ اِیۡتُوۡنِیۡ بِکِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ ہٰذَاۤ اَوۡ اَثٰرَۃٍ مِّنۡ عِلۡمٍ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۴﴾

۴۔ کہدیجئے: مجھے بتاؤ جنہیں اللہ کے سوا تم پکارتے ہو، مجھے بھی دکھاؤ انہوں نے زمین کی کون سی چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں میں ان کی شرکت ہے؟ اگر تم سچے ہو تو اس سے پہلے کی کوئی کتاب یا کوئی باقی ماندہ علمی (ثبوت) میرے سامنے پیش کرو۔

4۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ کائنات کو خلق کرنے (تخلیق) اور چلانے (تدبیر) کے دو الگ الگ سرچشمے نہیں ہو سکتے کہ ایک ہستی خلق کرے اور دوسری ہستی تدبیر کرے۔ قرآن نے اس بات کو تکراراً بیان کیا ہے کہ جس نے کائنات کو خلق کیا ہے وہی اس کی تدبیر کر سکتا ہے (چلا سکتا ہے)۔ مشرکین جن ہستیوں اور بتوں کی طرف تدبیر کائنات کی نسبت دیتے تھے، ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ پھر ان کی طرف سے کچھ خلق بھی ہونا چاہیے۔ اگر ایسا ہے تو مجھے دکھاؤ کہ زمین میں انہوں نے کیا پیدا کیا ہے یا آسمان کی تخلیق میں ان کا کیا حصہ ہے۔ انبیائے سابقین کی کسی کتاب یا ان کی تعلیمات سے اس کا ثبوت پیش کرو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔

وَ مَنۡ اَضَلُّ مِمَّنۡ یَّدۡعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَنۡ لَّا یَسۡتَجِیۡبُ لَہٗۤ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ وَ ہُمۡ عَنۡ دُعَآئِہِمۡ غٰفِلُوۡنَ﴿۵﴾

۵۔ اور اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہ دے سکیں بلکہ جو ان کے پکارنے تک سے بے خبر ہوں؟

5۔ جن کو یہ پکارتے ہیں، وہ ان کی فریاد کو پہنچنا تو درکنار سرے سے ان کی فریاد سے ہی بے خبر ہوتے ہیں۔

وَ اِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوۡا لَہُمۡ اَعۡدَآءً وَّ کَانُوۡا بِعِبَادَتِہِمۡ کٰفِرِیۡنَ﴿۶﴾

۶۔ اور جب لوگ جمع کیے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی پرستش سے انکار کریں گے۔

6۔ یعنی قیامت کے دن مشرکین کے معبود اپنے پکارنے والوں کے دشمن ہوں گے، یعنی جن انبیا اور فرشتوں کو مشرکین نے اپنا معبود بنا لیا تھا، وہ قیامت کے دن ان مشرکین کے دشمن ہوں گے۔ یعنی ان کے خلاف ہوں گے اور ان کی عبادت کا بھی انکار کریں گے، یعنی یہ مؤقف بیان کریں گے کہ ان کی پرستش میں ہمارا کوئی دخل نہیں ہے، یہ خود ذمے دار ہیں۔

وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلۡحَقِّ لَمَّا جَآءَہُمۡ ۙ ہٰذَا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ ؕ﴿۷﴾

۷۔ اور جب ان کے سامنے ہماری واضح آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو جب حق ان کے پاس آ جاتا ہے تو کفار کہتے ہیں: یہ تو صریح جادو ہے۔

7۔ قرآن کو جادو قرار دینا خود اپنی جگہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کسی بشر کا کلام نہیں ہو سکتا۔ اس کلام کے مضامین اس کا طرز کلام کسی بشری کلام سے نہیں ملتا، نہ یہ کلام اس دور کے کسی ماحول سے متاثر نظر آتا ہے، نہ اس میں کسی موجودہ ثقافت کی چھاپ نظر آتی ہے۔

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ ؕ قُلۡ اِنِ افۡتَرَیۡتُہٗ فَلَا تَمۡلِکُوۡنَ لِیۡ مِنَ اللّٰہِ شَیۡئًا ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَا تُفِیۡضُوۡنَ فِیۡہِ ؕ کَفٰی بِہٖ شَہِیۡدًۢا بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ ؕ وَ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ﴿۸﴾

۸۔ کیا یہ کہتے ہیں: اس نے اسے خود گھڑ لیا ہے؟ کہدیجئے: اگر میں نے اسے خود گھڑ لیا ہے تو تم میرے لیے اللہ کی طرف سے (بچاؤ کا) کوئی اختیار نہیں رکھتے، تم اس (قرآن) کے بارے میں جو گفت و شنید کرتے ہو اس سے اللہ خوب باخبر ہے اور میرے درمیان اور تمہارے درمیان اس پر گواہی کے لیے وہی کافی ہے اور وہی بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔

8۔ اگر میں نے اس قرآن کو خود گھڑ کر اللہ کی طرف نسبت دی ہے تو اللہ مجھے اس جرم میں اپنی گرفت میں لے گا۔ اس وقت مجھے اللہ سے کون بچائے گا؟ تم لوگ؟ تمہارے پاس بھی کوئی ایسا اختیار نہیں ہے۔

قُلۡ مَا کُنۡتُ بِدۡعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَ مَاۤ اَدۡرِیۡ مَا یُفۡعَلُ بِیۡ وَ لَا بِکُمۡ ؕ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ وَ مَاۤ اَنَا اِلَّا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ﴿۹﴾

۹۔ کہدیجئے: میں رسولوں میں انوکھا (رسول) نہیں ہوں اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا ہو گا، میں تو صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے اور میں تو صرف واضح طور پر تنبیہ کرنے والا ہوں۔

9۔ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے منکرین کہتے تھے: یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے، بازاروں میں چلتا ہے۔ یہ اللہ کا رسول ہے تو اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ۔ ان کے جواب میں فرمایا: آپ کہ دیں میں کوئی نرالا رسول نہیں ہوں کہ دنیا میں پہلی بار کوئی انسان رسول بن کر آیا ہو۔ میری طرح کے رسول پہلے اور بھی آئے ہیں، جو کھاتے پیتے تھے۔ کسی رسول کے ساتھ کوئی فرشتہ نہیں آیا کہ اس کی رسالت کا ثبوت فراہم کرتا ہو۔ وَ مَاۤ اَدۡرِیۡ مَا یُفۡعَلُ بِیۡ میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ اس میں بذات خود، وحی سے ہٹ کر علم غیب جاننے کی نفی ہے کہ اگر مجھ پر وحی نازل نہ ہوتی تو میں خود یہ بھی نہیں جان سکتا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ واضح رہے غیب کا علم بذات خود صرف اللہ جانتا ہے اور اللہ کے بعد وہ لوگ علم غیب جانتے ہیں جن کو اللہ غیب کی تعلیم دے۔

قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ کَانَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ وَ کَفَرۡتُمۡ بِہٖ وَ شَہِدَ شَاہِدٌ مِّنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ عَلٰی مِثۡلِہٖ فَاٰمَنَ وَ اسۡتَکۡبَرۡتُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿٪۱۰﴾

۱۰۔ کہدیجئے: مجھے بتاؤ اگر یہ (قرآن) اللہ کی طرف سے ہو اور تم نے اس سے انکار کیا ہو جب کہ بنی اسرائیل کا ایک گواہ اس جیسی کتاب پر گواہی دے چکا ہے اور پھر وہ ایمان بھی لا چکا ہو اور تم نے تکبر کیا ہو (تو تمہارا کیا بنے گا؟) بیشک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔

10۔ ممکن ہے مکہ میں بنی اسرائیل کا کوئی فرد رہا ہو جس نے قرآن کے کلام اللہ ہونے کی تصدیق کی ہو اور اہل مکہ اس کو جانتے ہوں۔ اگر اس سے مراد عبد اللہ بن سلام ہے جو یہودیوں کے بڑے عالم تھے اور انہوں نے مدینے میں اسلام قبول کیا تھا تو یہ آیت مدنی ہو سکتی ہے، کیونکہ عبد اللہ بن سلام نے مدینے میں اسلام قبول کیا تھا۔