بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

حٰمٓ ۚ﴿۱﴾

۱۔ حا، میم ۔

تَنۡزِیۡلٌ مِّنَ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۚ﴿۲﴾

۲۔ خدائے رحمن رحیم کی نازل کردہ (کتاب) ہے۔

کِتٰبٌ فُصِّلَتۡ اٰیٰتُہٗ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا لِّقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ ۙ﴿۳﴾

۳۔ ایسی کتاب جس کی آیات کھول کر بیان کی گئی ہیں، ایک عربی(زبان کا) قرآن علم رکھنے والوں کے لیے ،

3۔ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیات واضح ہیں۔ اس میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن عربی زبان میں ہے۔ لِّقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ ۔ یعنی یہ قرآن ایسی قوم کے لیے ہے جو اس کے معانی کا علم رکھتی ہے۔ خواہ عرب ہو یا غیر عرب۔ چونکہ قرآن کے معانی پر علم حاصل کرنے کے لیے عرب ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ اس صورت میں ہے، اگر ہم یَّعۡلَمُوۡنَ کے بعد معانیہ کو مفعول تصور کریں اور اگر ہم یَّعۡلَمُوۡنَ کو متروک المفعول تصور کرتے ہیں تو آیت کا یہ مطلب بنتا ہے: یہ قرآن ان لوگوں کے لیے ہے جو علم رکھتے ہیں۔ اس صورت میں مطلق علم مراد ہو گا۔ یعنی قرآن سے استفادہ وہی لوگ کریں گے جو علم و آگہی رکھتے ہیں۔

بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا ۚ فَاَعۡرَضَ اَکۡثَرُہُمۡ فَہُمۡ لَا یَسۡمَعُوۡنَ﴿۴﴾

۴۔ بشارت دیتا ہے اور تنبیہ بھی کرتا ہے لیکن ان میں سے اکثر نے منہ پھیر لیا ہے پس وہ سنتے نہیں ہیں۔

وَ قَالُوۡا قُلُوۡبُنَا فِیۡۤ اَکِنَّۃٍ مِّمَّا تَدۡعُوۡنَاۤ اِلَیۡہِ وَ فِیۡۤ اٰذَانِنَا وَقۡرٌ وَّ مِنۡۢ بَیۡنِنَا وَ بَیۡنِکَ حِجَابٌ فَاعۡمَلۡ اِنَّنَا عٰمِلُوۡنَ ﴿۵﴾ ۞ؓ

۵۔ اور وہ کہتے ہیں: جس چیز کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے اس کے لیے ہمارے دل غلاف میں ہیں اور ہمارے کانوں میں بھاری پن (بہراپن) ہے اور ہمارے درمیان اور تمہارے درمیان پردہ حائل ہے، پس تم اپنا کام کرو، ہم اپنا کام کرتے ہیں۔

قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَاسۡتَقِیۡمُوۡۤا اِلَیۡہِ وَ اسۡتَغۡفِرُوۡہُ ؕ وَ وَیۡلٌ لِّلۡمُشۡرِکِیۡنَ ۙ﴿۶﴾

۶۔کہدیجئے: میں بھی تم جیسا آدمی ہوں، میری طرف وحی ہوتی ہے کہ ایک اللہ ہی تمہارا معبود ہے لہٰذا تم اس کی طرف سیدھے رہو اور اسی سے مغفرت مانگو اور تباہی ہے ان مشرکین کے لیے ،

الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمۡ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ کٰفِرُوۡنَ﴿۷﴾

۷۔ جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور جو آخرت کا انکار کرتے ہیں۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمۡ اَجۡرٌ غَیۡرُ مَمۡنُوۡنٍ ٪﴿۸﴾

۸۔ لیکن جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالح بجا لائے یقینا ان کے لیے نہ ختم ہونے والا ثواب ہے۔

قُلۡ اَئِنَّکُمۡ لَتَکۡفُرُوۡنَ بِالَّذِیۡ خَلَقَ الۡاَرۡضَ فِیۡ یَوۡمَیۡنِ وَ تَجۡعَلُوۡنَ لَہٗۤ اَنۡدَادًا ؕ ذٰلِکَ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۚ﴿۹﴾

۹۔ کہدیجئے: کیا تم اس ذات کا انکار کرتے ہو اور اس کے لیے مدمقابل قرار دیتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا؟ وہی تو عالمین کا رب ہے۔

وَ جَعَلَ فِیۡہَا رَوَاسِیَ مِنۡ فَوۡقِہَا وَ بٰرَکَ فِیۡہَا وَ قَدَّرَ فِیۡہَاۤ اَقۡوَاتَہَا فِیۡۤ اَرۡبَعَۃِ اَیَّامٍ ؕ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِیۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اور اسی نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے اور اس میں برکات رکھ دیں اور اس میں چار دنوں میں حاجتمندوں کی ضروریات کے برابر سامان خوراک مقرر کیا۔

10۔ مفسرین اس آیت کو قرآن کے اس مسلمہ اصول پر تطبیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، چھ دنوں میں پیدا کیا اور ان آیات کے مطابق دن چھ نہیں آٹھ دن بنتے ہیں۔ اس لیے مختلف توجیہات و تاویلات کا سہارا لیتے ہیں۔ حالانکہ یہ آیت اس بات سے مربوط نہیں ہے کہ آسمان اور زمین کتنے دنوں میں پیدا کئے گئے۔ اگرچہ زمین اور آسمانوں کی تخلیق کے چار دنوں کا ذکر ہے، باقی کا ذکر نہیں ہے۔کیونکہ پوری کائنات کے پیدا کرنے میں جو چھ دن لگے ہیں، وہ آسمان زمین اور انسان اور ان میں موجود اشیاء سب کے بارے میں ہے۔ جبکہ اس آیت میں وَ مَا بَیۡنَہُمَا کا ذکر نہیں ہے اور اس کی جگہ زمین کی تخلیق کے بعد کے مراحل کے چار ایام کا ذکر ہے، جن کا تخلیق کے چھ دنوں سے ربط نہیں ہے، بلکہ زمین کی تخلیق کے بعد اس میں بسنے والوں کے لیے اسے قابل سکونت بنانے کا ذکر ہے۔