بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾

۱۔ الف ، لام ، میم۔

غُلِبَتِ الرُّوۡمُ ۙ﴿۲﴾

۲۔ رومی مغلوب ہو گئے،

2۔ روم سے مراد قدیم ”رومن ایمپائر“ کا وہ مشرقی حصہ ہے جو 395ء میں اس سے کٹ کر خود ایک الگ سلطنت بن گیا۔ مسیحیوں کے قبضے میں یہ سلطنت 1454ء تک رہی۔ اس کے بعد ترکوں کے قبضے میں آ گئی۔ اس کا دار الحکومت استنبول یا قسطنطنیہ تھا اور اسی کا قدیم نام ”جدید روم“ بھی ہے۔ شام، فلسطین اور ایشیائے کوچک کے علاقے سب اسی میں شامل تھے۔ (دریابادی)

رومیوں پر ایرانیوں کا غلبہ 615ء میں پورا ہوا، جو تقریباً 6 سال قبل از ہجرت ہے۔یہی اس آیت کے نزول کا زمانہ ہے۔ مشرکین مکہ ایرانی مجوسیوں کے غلبے پر خوش تھے، کیونکہ مجوسی بھی توحید، وحی اور نبوت کے قائل نہ تھے، اس وجہ سے وہ مشرکین کے قریب المذہب سمجھے جاتے تھے۔ جبکہ رومی عیسائی وحی و رسالت کے ماننے والے اور مسلمانوں کے قریب المذہب تھے۔

فِیۡۤ اَدۡنَی الۡاَرۡضِ وَ ہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ غَلَبِہِمۡ سَیَغۡلِبُوۡنَ ۙ﴿۳﴾

۳۔ قریبی ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہو جائیں گے،

فِیۡ بِضۡعِ سِنِیۡنَ ۬ؕ لِلّٰہِ الۡاَمۡرُ مِنۡ قَبۡلُ وَ مِنۡۢ بَعۡدُ ؕ وَ یَوۡمَئِذٍ یَّفۡرَحُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۴﴾

۴۔ چند سالوں میں، پہلے بھی اور بعد میں بھی اختیار کل اللہ کو حاصل ہے، اہل ایمان اس روز خوشیاں منائیں گے،

3۔4 قرآن کا ایک عظیم زندہ معجزہ ہے کہ رومیوں کی شکست کی خبر کے ساتھ چند سالوں میں ایرانیوں پر رومیوں کے غالب آنے کی پیشگوئی فرما دی اور مدت کا تعین بھی لفظ بِضۡعِ کے ساتھ فرمایا، کیونکہ لفظ بِضۡعِ کا اطلاق تین سے دس تک کی مقدار پر ہوتا ہے جو 624ء میں پوری ہو گئی اور رومیوں کو ایرانیوں پر فتح مل گئی۔ اسی سال جنگ بدر میں مسلمانوں کو عظیم فتح حاصل ہوئی۔

بِنَصۡرِ اللّٰہِ ؕ یَنۡصُرُ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الرَّحِیۡمُ ۙ﴿۵﴾

۵۔ اللہ کی مدد پر، اللہ جسے چاہتا ہے نصرت عطا فرماتا ہے اور وہ غالب آنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

وَعۡدَ اللّٰہِ ؕ لَا یُخۡلِفُ اللّٰہُ وَعۡدَہٗ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۶﴾

۶۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے، اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

یَعۡلَمُوۡنَ ظَاہِرًا مِّنَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚۖ وَ ہُمۡ عَنِ الۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ غٰفِلُوۡنَ﴿۷﴾

۷۔ لوگ تو دنیا کی ظاہری زندگی کے بارے میں جانتے ہیں اور آخرت سے غافل ہیں۔

اَوَ لَمۡ یَتَفَکَّرُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ ۟ مَا خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَاۤ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ وَ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَآیِٔ رَبِّہِمۡ لَکٰفِرُوۡنَ﴿۸﴾

۸۔ کیا انہوں نے اپنے (دل کے) اندر یہ غور و فکر نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو برحق اور معینہ مدت کے لیے خلق کیا ہے؟ اور لوگوں میں یقینا بہت سے ایسے ہیں جو اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔

فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ : کیا وہ اپنے اندر، یعنی اپنے دل میں نہیں سوچتے کہ اس کائنات کو عبث اور لغو نہیں، ایک مقصد و حکمت کے تحت بنایا ہے اور ایک مدت معین کے لیے خلق کیا ہے۔ اس معین مدت کے بعد آخرت کا عالم شروع ہو گا۔ بعض نے فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ کے معنی یہ کیے ہیں: کیا انہوں نے اپنے وجود کے بارے میں فکر نہیں کیا۔ لیکن یہ معنی سیاق آیت کے خلاف ہے۔ اگرچہ اپنی جگہ یہ بات بھی درست ہے کہ انسان خود اپنے بارے میں فکر کرے تو سمجھ جاتا ہے کہ اس انسان کو اللہ نے اس دنیاوی زندگی کے لیے نہیں بنایا۔ اگر ایسا ہوتا تو جس قدر اس زندگی کی آسائشیں اسے مل جاتیں اسی قدر اسے زیادہ سکون مل جاتا، جبکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ جس قدر کسی کے پاس یہ دنیا زیادہ آتی ہے وہ زیادہ بے سکون ہو جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات کی اصل منزل دنیوی زندگی نہیں ہے۔

اَوَ لَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ کَانُوۡۤا اَشَدَّ مِنۡہُمۡ قُوَّۃً وَّ اَثَارُوا الۡاَرۡضَ وَ عَمَرُوۡہَاۤ اَکۡثَرَ مِمَّا عَمَرُوۡہَا وَ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ ؕ فَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظۡلِمَہُمۡ وَ لٰکِنۡ کَانُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ ؕ﴿۹﴾

۹۔ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ دیکھ لیتے کہ ان سے پہلوں کا کیا انجام ہوا؟ جب کہ وہ قوت میں ان سے زیادہ تھے انہوں نے زمین کو تہ و بالا کیا(بویا جوتا) اور انہوں نے زمین کو ان سے کہیں زیادہ آباد کر رکھا تھا جتنا انہوں نے زمین کو آباد کر رکھا ہے اور ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے، پس اللہ تو ان پر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔

اَثَارُ کے معنی تہ و بالا کرنے کے ہیں جو آباد کاری کے لیے کیا جاتا ہے۔ زمین کو تہ و بالا کرنے میں زراعت بھی شامل ہے نیز کان کنی اور نہریں بنانا بھی۔

ثُمَّ کَانَ عَاقِبَۃَ الَّذِیۡنَ اَسَآءُوا السُّوۡٓاٰۤی اَنۡ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ کَانُوۡا بِہَا یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿٪۱۰﴾

۱۰۔ پھر جنہوں نے برا کیا ان کا انجام بھی برا ہوا کیونکہ انہوں نے اللہ کی نشانیوں کی تکذیب کی تھی اور وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے۔