بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

سورہ آل عمران

اس سورہ میں ایک مقام پر آل عمران کا ذکر آیاہے، اس وجہ سے سورے کا یہی نام قرار دے دیا گیا۔ عمران حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کے والد کا نام ہے۔ بائبل میں ان کا نام عمرام آیا ہے۔ ہجرت کے بعد مدینے کی نو تشکیل شدہ چھوٹی سی ریاست کو درپیش مشکلات اور اس کی بے سر و سامانی کے ماحول میں یہ سورہ نازل ہوا۔

الٓمَّٓ ۙ﴿۱﴾

۱۔ الف۔ لام۔ میم۔

اللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۙ الۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ ؕ﴿۲﴾

۲۔ اللہ وہ ذات ہے جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں جو زندہ (اور کائنات کا) زبردست نگہدار ہے۔

نَزَّلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ اَنۡزَلَ التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ ۙ﴿۳﴾

۳۔ اس نے حق پر مبنی ایک کتاب (اے رسول) آپ پر نازل کی جو سابقہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس نے توریت و انجیل کو نازل کیا۔

3۔ عہدین کتابِ دوم تاریخ ایام 15: 2 میں آیا ہے کہ بنی اسرائیل ایک لمبی مدت تک توریت کے بغیر رہے۔ علامہ بلاغی الھدیٰ الیٰ دین المصطفی میں تحریر فرماتے ہیں: عہدِ قدیم کی زبان بابل کی اسیری تک عبرانی تھی اور بابل کی اسیری کے بعد ان کتابوں میں سے بعض کلدانی زبان میں تھیں جو کہ بابل کی زبان ہے۔ بعد میں یہود کے 72 دانشوروں نے 283 یا 285 یا 287 قبل مسیح میں یونانی زبان میں ترجمہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ترجمہ 72 دنوں میں مکمل ہوا۔

انجیل چار کتابوں کے مجموعے کا نام ہے۔ ٭ انجیل متی : حضرت مسیح علیہ السلام کے 23 سال بعد ترتیب پائی۔ ٭ انجیل مرقص : مرقص پطرس کا شاگرد تھا، حواریوں میں سے نہیں تھا اور وہ خود حضرت مسیح کے خدا ہونے کا قائل نہ تھا۔ (تراجم الاخبار تالیف: پطرس قرماج)۔ ٭ انجیل لوقا : یہ پہلی دو انجیلوں کے بعد لکھی گئی۔ ٭ انجیل یوحنا : یہ حضرت مسیح کے 60 سال بعد لکھی گئی۔

مِنۡ قَبۡلُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ اَنۡزَلَ الۡفُرۡقَانَ ۬ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ لَہُمۡ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ ذُو انۡتِقَامٍ﴿۴﴾

۴۔ اس سے پہلے انسانوں کی ہدایت کے لیے اور فرقان (حق و باطل میں امتیاز کرنے والا قانون) نازل فرمایا، جنہوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا ان کے لیے سخت عذاب ہے، اللہ بڑا غالب آنے والا، خوب بدلہ لینے والا ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَخۡفٰی عَلَیۡہِ شَیۡءٌ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ ؕ﴿۵﴾

۵۔ زمین و آسمان کی کوئی چیز اللہ سے یقینا پوشیدہ نہیں ہے۔

ہُوَ الَّذِیۡ یُصَوِّرُکُمۡ فِی الۡاَرۡحَامِ کَیۡفَ یَشَآءُ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿۶﴾

۶۔ وہی تو ہے جو (ماؤں کے) رحموں میں جیسی چاہتا ہے تمہاری تصویر بناتا ہے، اس غالب آنے والے، حکمت کے مالک کے سوا کوئی معبود نہیں۔

الارحام ، رحم کی جمع ہے۔ وہ جگہ جہاں جنین کی تخلیق و تدوین اور آیت کی تعبیر کے مطابق صورت گری ہوتی ہے۔ رحم کے اطلاق سے نزول قرآن کے زمانے اور ہمارے زمانے میں رحم مادر ذہنوں میں آتا ہے، کیونکہ گزشتہ زمانے میں ماں کے بغیر رحم کا تصور ممکن نہ تھا۔ قرآنی تعبیر میں الۡاَرۡحَامِ مطلق ذکر ہوا ہے، ارحام الامہات (ماؤں کے رحم) نہیں فرمایا، لہذا رحم میں ہر وہ جگہ شامل ہے جس میں جنین کی پرورش ہوتی ہے۔

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَ ابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ ۚ؃ وَ مَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللّٰہُ ۘؔ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ﴿۷﴾

۷۔وہی ذات ہے جس نے آپ پر وہ کتاب نازل فرمائی جس کی بعض آیات محکم (واضح) ہیں وہی اصل کتاب ہیں اور کچھ متشابہ ہیں، جن کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنہ اور تاویل کی تلاش میں متشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، جب کہ اس کی (حقیقی) تاویل تو صرف خدا اور علم میں راسخ مقام رکھنے والے ہی جانتے ہیں جو کہتے ہیں: ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں، یہ سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نصیحت تو صرف عقل مند ہی قبول کرتے ہیں۔

7۔ قرآن کی آیات دو حصوں میں منقسم ہیں۔ ایک حصہ محکمات اور دوسرا متشابہات پر مشتمل ہے۔ محکم وہ عبارت ہے جس سے مطلب واضح طور پر سمجھ میں آ جائے۔ متشابہ وہ عبارت ہے جس کا مطلب از خود واضح نہ ہو۔ محکمات کو دو اعتبار سے بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اول یہ کہ اسلامی دستور کی اہم دفعات محکمات میں یعنی صاف و شفاف الفاظ میں بیان کی گئی ہیں، دوم یہ کہ متشابہات کو سمجھنے کے لیے محکمات کی طرف رجوع کرنا ہوتا ہے۔ اسی لیے محکمات کو ام الکتاب کہا گیا ہے۔ البتہ فتنہ پرور لوگ متشابہات کو محکمات کی طرف لے جانے کی بجائے خود انہیں متشابہات کے ذو معنی ہونے سے اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں اور اس کی تاویل گھڑ لیتے ہیں۔ توجہ رہے کہ ہر حکم و عمل کا منطقی محور اور مرکزی نکتہ جس پر اس حکم کا دار و مدار ہوتا ہے، اس کی تاویل ہے۔ ہمارے نزدیک یہ تاویل اللہ اور راسخون فی العلم جانتے ہیں، آیت میں وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ نیا جملہ نہیں بلکہ سابقہ جملے پر عطف ہے اور یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا جملہ مستانفہ حالیہ ہے اور یہی نظریہ حضرت ابن عباس کا بھی ہے۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: اول الراسخون فی العلم رسول اللّہ ۔ سب سے پہلے راسخ فی العلم رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: نحن الراسخون فی العلم و نحن نعلم تاْویلہ ۔ ہم ہی راسخون فی العلم ہیں اور ہم ہی قرآن کی تاویل جانتے ہیں۔

رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَ ہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ﴿۸﴾

۸۔ ہمارے رب! جب تو نے ہمیں ہدایت بخشی ہے تو اس کے بعد ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عنایت فرما، یقینا تو بڑا عطا فرمانے والا ہے۔

8۔ جیسا کہ سورﮤ حمد کی تشریح میں ذکر ہوا کہ انسان مومن ہر آن اللہ کی طرف سے فیضان ہدایت کا محتاج ہوتا ہے۔ جیسا کہ دعائے ماثور میں آیا ہے: ربّ لا تکلنی الی نفسی طرفۃ عین ابداً میرے مالک مجھے کبھی بھی ایک لمحے کے لیے بھی میرے حال پر نہ چھوڑ۔

رَبَّنَاۤ اِنَّکَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوۡمٍ لَّا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ ٪﴿۹﴾

۹۔ہمارے رب! بلاشبہ تو اس روز سب لوگوں کو جمع کرنے والا ہے جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں، بے شک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَنۡ تُغۡنِیَ عَنۡہُمۡ اَمۡوَالُہُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ شَیۡئًا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ وَقُوۡدُ النَّارِ ﴿ۙ۱۰﴾

۱۰۔جو لوگ کافر ہو گئے ہیں ان کے اموال و اولاد انہیں اللہ سے ہرگز کچھ بھی بے نیاز نہیں بنائیں گے اور یہ لوگ دوزخ کے ایندھن ہوں گے۔