بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾

۱۔ الف، لام ، میم۔

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ﴿۲﴾

۲۔ کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟

2۔ ایمان صرف ایک لفظ اٰمَنَّا کے تلفظ سے عبارت نہیں ہے بلکہ ایک نظام اور دستور حیات کو اپنانے اور اسے اپنانے کی راہ میں پیش آنے والی تمام مشکلات و مصائب کا مجاہدانہ مقابلہ کرنے نیز کردار و امانت کا نام ہے۔ اس ایمان کی کوئی قیمت نہیں جس کا انسان کے کردار پر کوئی اثر نہ ہو۔ اگر ایمان کا رتبہ اتنا ارزاں ہوتا کہ لب ہلانے سے حاصل ہو جاتا تو صادق و کاذب کی تمیز نہ ہوتی، مجاہد اور فراری میں کوئی فرق نہ ہوتا، ایمان کے لیے قربانی دینے والوں اور ایمان کے نام پر مفاد حاصل کرنے والوں میں بھی کوئی امتیاز نہ ہوتا۔

وَ لَقَدۡ فَتَنَّا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ فَلَیَعۡلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا وَ لَیَعۡلَمَنَّ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۳﴾

۳۔ اور بتحقیق ہم ان سے پہلوں کو بھی آزما چکے ہیں کیونکہ اللہ کو بہرحال یہ واضح کرنا ہے کہ کون سچے ہیں اور یہ بھی ضرور واضح کرنا ہے کہ کون جھوٹے ہیں۔

3۔ آزمائش اور امتحان اللہ تعالیٰ کا دائمی قانون ہے جو تمام امتوں میں جاری رہا ہے۔ اللہ کو تو قدیم سے علم ہے کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔ لیکن امتحان کے ذریعے اللہ کا علم ظہور پذیر ہوتا ہے، علم کے مرحلے سے عمل کے مرحلے میں آ جاتا ہے اور عمل سے استحقاق کا مرحلہ آتا ہے۔ یعنی نیک عمل سے ثواب اور بد عمل سے عذاب کا مستحق ہونے کا مرحلہ آتا ہے۔

اَمۡ حَسِبَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ السَّیِّاٰتِ اَنۡ یَّسۡبِقُوۡنَا ؕ سَآءَ مَا یَحۡکُمُوۡنَ ﴿۴﴾

۴۔ برائی کے مرتکب افراد کیا یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ہم سے بچ نکلیں گے ؟ کتنا برا فیصلہ ہے جو یہ کر رہے ہیں۔

مَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ اللّٰہِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ لَاٰتٍ ؕ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ﴿۵﴾

۵۔ جو اللہ کے حضور پہنچنے کی امید رکھتا ہے تو (وہ باخبر رہے کہ) اللہ کا مقرر کردہ وقت یقینا آنے ہی والا ہے اور وہ بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔

5: لِقَآءَ اللّٰہِ سے مراد اللہ کے سامنے حساب کے لیے حاضر ہونا ہے، جہاں وہ تمام حجاب ہٹ جائیں گے جو دنیا میں اس کی آنکھوں کے سامنے تھے اور حقائق روشن ہو کر سامنے آئیں گے۔

وَ مَنۡ جَاہَدَ فَاِنَّمَا یُجَاہِدُ لِنَفۡسِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۶﴾

۶۔ اور جو شخص جفاکشی کرتا ہے تو وہ صرف اپنے فائدے کے لیے جفاکشی کرتا ہے، اللہ تو یقینا سارے عالمین سے بے نیاز ہے۔

6۔ جہاد سے خود تمہیں ارتقا حاصل ہوتا ہے اور تمہارے ایمان کی صداقت ثابت ہو جاتی ہے ورنہ خدا تمہارے جہاد کا محتاج تو نہیں ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُکَفِّرَنَّ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ لَنَجۡزِیَنَّہُمۡ اَحۡسَنَ الَّذِیۡ کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۷﴾

۷۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ہم ان سے ان کی برائیاں ضرور دور کر دیں گے اور انہیں ان کے بہترین اعمال کا صلہ بھی ضرور دیں گے۔

7۔ ایمان کفر کا اور عمل صالح گناہوں کا کفارہ ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے: صلوۃ اللیل کفارۃ لما اجترح بالنھار ۔ (بحار الانوار 84: 136) رات کی نمازیں دن کے گناہوں کا کفارہ ہیں۔

وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ حُسۡنًا ؕ وَ اِنۡ جَاہَدٰکَ لِتُشۡرِکَ بِیۡ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ فَلَا تُطِعۡہُمَا ؕ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۸﴾

۸۔ اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اگر تیرے ماں باپ میرے ساتھ شرک کرنے پر تجھ سے الجھ جائیں جس کا تجھے کوئی علم نہ ہو تو تو ان دونوں کا کہنا نہ ماننا، تم سب کی بازگشت میری طرف ہے، پھر میں تمہیں بتا دوں گا تم کیا کرتے رہے ہو؟

8۔ اگرچہ اللہ کی بندگی کے بعد اولاد پر سب سے بڑا حق والدین کے ساتھ نیکی ہے، تاہم اللہ کے مقابلے میں والدین کو بھی نظر انداز کرنا ہو گا کیونکہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق۔ (الفقیہ 2: 621) خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدۡخِلَنَّہُمۡ فِی الصّٰلِحِیۡنَ﴿۹﴾

۹۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے انہیں ہم بہرصورت صالحین میں شامل کریں گے۔

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ فَاِذَاۤ اُوۡذِیَ فِی اللّٰہِ جَعَلَ فِتۡنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللّٰہِ ؕ وَ لَئِنۡ جَآءَ نَصۡرٌ مِّنۡ رَّبِّکَ لَیَقُوۡلُنَّ اِنَّا کُنَّا مَعَکُمۡ ؕ اَوَ لَیۡسَ اللّٰہُ بِاَعۡلَمَ بِمَا فِیۡ صُدُوۡرِ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے تو ہیں: ہم اللہ پر ایمان لائے لیکن جب اللہ کی راہ میں اذیت پہنچتی ہے تو لوگوں کی طرف سے پہنچنے والی اذیت کو عذاب الٰہی کی مانند تصور کرتے ہیں اور اگر آپ کے رب کی طرف سے مدد پہنچ جائے تو وہ ضرور کہتے ہیں: ہم تو تمہارے ساتھ تھے، کیا اللہ کو اہل عالم کے دلوں کا حال خوب معلوم نہیں ہے؟

10۔ امن و آسائش کے دنوں میں ایمان کا اعلان کرتے ہیں، لیکن ایمان کی راہ میں جب تکلیف اٹھانی پڑے تو یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ایمان نہ بھی لاتے تو اللہ کا عذاب، کیا اس عذاب سے بڑا ہوتا؟ اور فتح و نصرت آنے کی صورت میں اپنی وفاداری کا ڈنکا بجاتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں جو ان کے دلوں کے حال سے ناواقف ہیں۔ مکہ میں فتح و نصرت کا کوئی مرحلہ ابھی نہیں آیا تھا۔ ممکن ہے یہ آیت مدنی ہو، مگر یہ کہ نَصۡرٌ سے مراد ہر قسم کی کامیابی لیا جائے، لیکن مکہ میں اِنَّا کُنَّا مَعَکُمۡ ہم تمہارے ساتھ ہیں، کا مرحلہ تو نہیں آیا تھا۔ اس میں یہ توجیہ بعید معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد امکان وقوع ہے، تحقق نہیں ہے۔ یعنی یہ بتانا مقصود ہے کہ آئندہ ایسا ہو سکتا ہے۔