بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا ۙ﴿۱﴾

۱۔بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل فرمایا تاکہ وہ سارے جہاں والوں کے لیے انتباہ کرنے والا ہو۔

1۔ اس آیت میں مستشرقین کے اس الزام کی رد ہے کہ محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شروع میں صرف مکہ اور اس کے گرد و پیش والوں کی طرف مبعوث ہونے کے مدعی تھے، بعد میں محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی دعوت کو وسعت دی، جبکہ مکہ میں نازل ہونے والی اس سورت میں اعلان ہوتا ہے کہ یہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سارے جہانوں کی تنبیہ کے لیے آیا ہے۔

ۣالَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقۡدِیۡرًا﴿۲﴾

۲۔ جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا اور جس کی بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے اور جس نے ہر چیز کو خلق فرمایا پھر ہر ایک کو اپنے اندازے میں مقدر فرمایا۔

2۔ آسمانوں اور زمین کی سلطنت صرف اللہ کے پاس ہے۔ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ اس سلطنت میں کوئی شریک نہیں ہے۔ جب کہ مشرکین تدبیر و سلطنت میں دوسروں کو شریک بناتے تھے کہ خلق تو خدا نے کیا ہے لیکن خلق کے بعد تدبیر کے اختیارات غیر اللہ کے پاس ہیں۔

وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقۡدِیۡرًا : ہر چیز کی تخلیق اور تقدیر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ تقدیر، تخلیق سے جدا عمل نہیں ہے۔ اسی طرح تدبیر تقدیر سے جدا عمل نہیں ہے۔

فَقَدَّرَہٗ تَقۡدِیۡرًا : اس جملے کا حق ادا کرنے والا ترجمہ مشکل ہے۔ ہر چیز کی تخلیق کے بعد اس کی بقا و ارتقا کا پیمانہ متعین کیا۔ یعنی اس کی تخلیق کے وقت ہی اس کی بقا و ارتقا کے لیے ضروری ہدایات اس میں ودیعت فرمائیں۔ ہر ایک کی بقا و ارتقا کے علل و اسباب کا تعین فرمایا اور فیزیکلی قانون وضع فرمایا۔ جس کو تقدیر کہتے ہیں۔ اس طرح ہر چیز کے لیے ایک تقدیر متعین ہے۔ یعنی ہر چیز پہلے سے تنظیم شدہ قانون کے تحت چل رہی ہے۔

وَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً لَّا یَخۡلُقُوۡنَ شَیۡئًا وَّ ہُمۡ یُخۡلَقُوۡنَ وَ لَا یَمۡلِکُوۡنَ لِاَنۡفُسِہِمۡ ضَرًّا وَّ لَا نَفۡعًا وَّ لَا یَمۡلِکُوۡنَ مَوۡتًا وَّ لَا حَیٰوۃً وَّ لَا نُشُوۡرًا﴿۳﴾

۳۔ لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے جو کسی چیز کو خلق نہیں کر سکتے بلکہ خود مخلوق ہیں اور وہ اپنے لیے بھی کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتے اور وہ نہ موت کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ حیات کا اور نہ ہی اٹھائے جانے کا۔

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفۡکُ ۨ افۡتَرٰىہُ وَ اَعَانَہٗ عَلَیۡہِ قَوۡمٌ اٰخَرُوۡنَ ۚۛ فَقَدۡ جَآءُوۡ ظُلۡمًا وَّ زُوۡرًا ۚ﴿ۛ۴﴾

۴۔ اور کفار کہتے ہیں: یہ قرآن ایک خود ساختہ چیز ہے جسے اس شخص نے خود گھڑ لیا ہے اور دوسرے لوگوں نے اس کام میں اس کی مدد کی ہے، (ایسی باتیں کر کے) یہ لوگ ظلم اور جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں۔

وَ قَالُوۡۤا اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ اکۡتَتَبَہَا فَہِیَ تُمۡلٰی عَلَیۡہِ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا﴿۵﴾

۵۔ اور کہتے ہیں: (یہ قرآن) پرانے لوگوں کی داستانیں ہیں جو اس شخص نے لکھوا رکھی ہیں اور جو صبح و شام اسے پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔

5۔ کہ تو دیا کہ دوسرے لوگوں نے اس قرآن کو گھڑنے میں مدد دی ہے، لیکن ان کی نشاندہی نہیں کر سکتے تھے۔ صرف چند آزاد کردہ غلاموں کانام لیتے تھے جن کا مبلغ علم سب کے سامنے تھا اور دشمن کے الزام کے الفاظ: ”یہ قرآن پرانے لوگوں کی داستانیں ہیں جنہیں اس شخص نے لکھ رکھا ہے“، اس بات کا ایک ثبوت چھوڑ گئے کہ قرآن مکی زندگی میں بھی ضبط تحریر میں لایا جاتا تھا اور اس کی تدوین کا انتظام شروع سے کیا جا رہا تھا۔ اس میں ان لوگوں کی رد ہے جو کہتے ہیں قرآن عہد رسالت میں مدوّن نہ تھا۔

قُلۡ اَنۡزَلَہُ الَّذِیۡ یَعۡلَمُ السِّرَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اِنَّہٗ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿۶﴾

۶۔کہدیجئے: اسے تو اس اللہ نے نازل کیا ہے جو آسمانوں اور زمین کا راز جانتا ہے، بے شک وہ بڑا غفور رحیم ہے۔

وَ قَالُوۡا مَالِ ہٰذَا الرَّسُوۡلِ یَاۡکُلُ الطَّعَامَ وَ یَمۡشِیۡ فِی الۡاَسۡوَاقِ ؕ لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مَلَکٌ فَیَکُوۡنَ مَعَہٗ نَذِیۡرًا ۙ﴿۷﴾

۷۔ اور وہ کہتے ہیں: یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے؟ اس پر کوئی فرشتہ کیوں نازل نہیں ہوتا؟ تاکہ اس کے ساتھ تنبیہ کر دیا کرے۔

اَوۡ یُلۡقٰۤی اِلَیۡہِ کَنۡزٌ اَوۡ تَکُوۡنُ لَہٗ جَنَّۃٌ یَّاۡکُلُ مِنۡہَا ؕ وَ قَالَ الظّٰلِمُوۡنَ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا﴿۸﴾

۸۔ یا اس کے لیے کوئی خزانہ نازل کر دیا جاتا یا اس کا کوئی باغ ہوتا جس سے وہ کھا لیا کرتا اور ظالم لوگ (اہل ایمان سے) کہتے ہیں: تم تو ایک سحرزدہ شخص کی پیروی کرتے ہو۔

7۔8 ان کا یہ کہنا تھا کہ اللہ کی طرف سے جو رسول آئے وہ بشر نہیں ہو سکتا۔ ان کے خیال میں مادی وجود اللہ کی نمائندگی نہیں کر سکتا۔ اسی لیے وہ فرشتوں کو اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیتے تھے اور ان کی پرستش کرتے تھے۔ اسی لیے ان کے نزدیک کھانا اور لوگوں کے درمیان چلنا پھرنا رسالت کے منافی ہے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ اگر کوئی بشر رسول ہوتا ہے تو اس صورت میں ممکن ہے کہ ایک فرشتہ اس رسول کے ساتھ ہونا چاہیے تاکہ اس فرشتے کے ذریعے غیب کے ساتھ اتصال ممکن ہو یا اگر کسی بشر کو رسول بنانا ہی تھا تو خزانوں اور جاگیروں کا مالک ہوتا۔ یہ کیسا رسول ہے جو عام لوگوں کی طرح زندگی گزارتا ہے۔ اسے چاہیے زمین پر بسنے والوں سے الگ پر تعیش زندگی گزارنے والا ہو، جبکہ رسول، اللہ کی طرف سے ہدایت دینے کے لیے آتے ہیں۔ وہ زندگی بھی ایسی گزارتے ہیں جو دوسروں کے لیے مثال ہو، تاکہ ان کی زندگی و سیرت بھی باعث ہدایت ہو۔

اُنۡظُرۡ کَیۡفَ ضَرَبُوۡا لَکَ الۡاَمۡثَالَ فَضَلُّوۡا فَلَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ سَبِیۡلًا﴿٪۹﴾

۹۔ دیکھیے! یہ لوگ آپ کے بارے میں کیسی باتیں بنا رہے ہیں، پس یہ ایسے گمراہ ہو گئے ہیں کہ ان کے لیے راہ پانا ممکن نہیں ہے۔

تَبٰرَکَ الَّذِیۡۤ اِنۡ شَآءَ جَعَلَ لَکَ خَیۡرًا مِّنۡ ذٰلِکَ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ وَ یَجۡعَلۡ لَّکَ قُصُوۡرًا﴿۱۰﴾

۱۰۔ بابرکت ہے وہ ذات کہ اگر وہ چاہے تو آپ کے لیے اس سے بہتر ایسے باغات بنا دے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں اور آپ کے لیے بڑے بڑے محل بنا دے۔

10۔ اگر مشیت الہٰی متقاضی ہوتی تو تمہارے تصور سے زیادہ خَیۡرًا مِّنۡ ذٰلِکَ باغات اور قصور فراہم کرتا۔