بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

طٰہٰ ۚ﴿۱﴾

۱۔ طا، ہا۔

1۔ امام محمد باقراور امام جعفر صادق علیہما السلام سے روایت ہے کہ طٰہٰ اور يٰس رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اسمائے مبارکہ ہیں۔

مَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لِتَشۡقٰۤی ۙ﴿۲﴾

۲۔ ہم نے یہ قرآن آپ پر اس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں۔

اِلَّا تَذۡکِرَۃً لِّمَنۡ یَّخۡشٰی ۙ﴿۳﴾

۳۔ بلکہ یہ تو خوف رکھنے والوں کے لیے صرف ایک یاد دہانی ہے۔

2۔3 آپ پر قرآن نازل کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ لوگوں کو ایمان پر آمادہ کرنے کے لیے ناقابل برداشت مشقت اٹھائیں۔ یہ تو ان لوگوں کے لیے یاددہانی ہے جن کے دلوں میں خوف خدا ہے۔

تَنۡزِیۡلًا مِّمَّنۡ خَلَقَ الۡاَرۡضَ وَ السَّمٰوٰتِ الۡعُلٰی ؕ﴿۴﴾

۴۔ یہ اس کی طرف سے نازل ہوا ہے جس نے زمین اور بلند آسمانوں کو بنایا ہے۔

اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی ﴿۵﴾

۵۔ وہ رحمن جس نے عرش پر اقتدار قائم کیا۔

5۔ غیر امامیہ کے علمائے سلف کا یہ مؤقف رہا ہے کہ اللہ عرش پر ہے اور اللہ کے وزن سے عرش سے چرچراہٹ کی آواز آتی ہے۔ جبکہ امامیہ کا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ اللہ مکان کا محتاج نہیں ہے۔ روایت ہے کہ اس آیت کے بارے میں سوال کے جواب میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جس نے اللہ کو کسی شے میں یا کسی شے پر قرار دیا اس نے شرک کا ارتکاب کیا۔

لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا وَ مَا تَحۡتَ الثَّرٰی ﴿۶﴾

۶۔ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اور جو کچھ ان کے درمیان اور جو کچھ زمین کی تہ میں ہے سب کا وہی مالک ہے۔

وَ اِنۡ تَجۡہَرۡ بِالۡقَوۡلِ فَاِنَّہٗ یَعۡلَمُ السِّرَّ وَ اَخۡفٰی ﴿۷﴾

۷۔ اور اگر آپ پکار کر بات کریں تو وہ رازوں کو بلکہ اس سے زیادہ مخفی باتوں کو بھی یقینا جانتا ہے۔

اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ لَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی﴿۸﴾

۸۔ اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، بہترین نام اسی کے ہیں۔

8۔ پرستش کے جتنے بھی محرکات ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور پر کوئی لفظ دلالت کرتا ہے تو وہ کماحقہ نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر کسی کو عالم کہا جائے تو عالم اس شخص پر کماحقہ دلالت نہیں کرتا۔ کیونکہ جو علم اس عالم کے پاس ہے وہ عارضی اور ناقص ہے۔ نہ اس کا ذاتی ہے بلکہ کسی کا دیا ہوا ہے، نہ وہ تمام معلومات کا علم رکھتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کا علم کسی کا دیا ہوا نہیں بلکہ ذاتی ہے اور وہ تمام معلومات کا علم رکھتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حیات ذاتی اور کامل ہے، عارضی اور ناقص نہیں ہے۔ لہٰذا علم، حیات، قدرت وغیرہ میں جو بھی جمال و کمال قابل تصور ہے، وہ سب اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ جیسا کہ ہم علیم، قدیر، حی و قادر کے اسماء سے اللہ کو یاد کرتے ہیں۔

وَ ہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ مُوۡسٰی ۘ﴿۹﴾

۹۔ اور کیا آپ تک موسیٰ کی خبر پہنچی ہے؟

اِذۡ رَاٰ نَارًا فَقَالَ لِاَہۡلِہِ امۡکُثُوۡۤا اِنِّیۡۤ اٰنَسۡتُ نَارًا لَّعَلِّیۡۤ اٰتِیۡکُمۡ مِّنۡہَا بِقَبَسٍ اَوۡ اَجِدُ عَلَی النَّارِ ہُدًی﴿۱۰﴾

۱۰۔ جب انہوں نے ایک آگ دیکھی تو اپنے گھر والوں سے کہا: ٹھہر جاؤ ! میں نے کوئی آگ دیکھی ہے، شاید میں اس میں سے تمہارے لیے کوئی انگارے لے آؤں یا آگ پر پہنچ کر راستے کا پتہ کر لوں۔

10۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام چند سال مدین میں گزارنے کے بعد اپنی زوجہ کے ہمراہ مصر واپس جاتے ہوئے جزیرہ نمائے سینا سے گزر رہے تھے، رات کی تاریکی میں راستہ بھولنے کا خطرہ تھا اور سردی بھی تھی۔ آگ دیکھ کر خیال آیا دونوں مسئلے حل ہو جائیں گے۔ نزدیک پہنچے تو دو جہاں کا مسئلہ حل ہو گیا۔