بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾

۱۔ الف لام میم۔

1۔ الف۔ لام۔ میم۔ انہیں”مقطعاتِ قرآنیہ“ کہتے ہیں۔ یہ صرف افتتاحیہ حروف ہی نہیں بلکہ ان میں وہ اسرار و رموز پنہاں ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب کے درمیان مخصوص ہیں۔ انہی سربستہ اسرار و رموز کے تحت بعض مقطعات مستقل آیت ہیں جیسے کٓہٰیٰعٓصٓ اور بعض مستقل آیت نہیں ہیں جیسے طٰسٓ ۔

ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾

۲۔ یہ کتاب، جس میں کوئی شبہ نہیں، ہدایت ہے تقویٰ والوں کے لیے۔

2۔ قرآن خود قابلِ ریب نہیں۔ اگر اس میں کسی کو شک ہے تو وہ قرآن سے ہٹ کر دیگر عوامل کی وجہ سے ہے۔ مثلًا خود شبہ کرنے والے کی نادانی، کج فہمی اور کوتاہ بینی وغیرہ۔

الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۙ﴿۳﴾

۳۔ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں نیز جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

3۔ غیب، شہود اور محسوس کا مقابل ہے۔ مذہب کے بنیادی عقائد ایمان بالغیب پر مبنی ہیں۔ جو لوگ ماورائے محسوسات کو دائرئہ تجربہ سے خارج ہونے کی وجہ سے مسترد کرتے ہیں، اولاً: ان کی خود یہی بات غیر تجرباتی ہے، ثانیاً: تجربات سے کلی نتائج اخذ کرنے کے لیے غیر تجرباتی اصول تسلیم کرنا پڑتے ہیں، ورنہ تجربہ صرف انہی افراد کے لیے دلیل بنتا ہے جو اس مرحلے سے گزرے ہوں۔ ثالثاً: اگر صرف محسوسات و تجربات ہی پر انحصار کرنا ہے تو انہیں چاہیے کہ ماورائے محسوسات پر نفی و اثبات میں کوئی نظریہ قائم نہ کریں۔ حالانکہ یہ لوگ جب ماورائے حس کی نفی کرتے ہیں تو حس و تجربے کی حدود سے نکل کر ماورائے حس میں قدم رکھتے ہوئے یہ نظریہ قائم کرتے ہیں۔ اب خواہ نفی کا نظریہ سہی، لیکن یہ ان کی طرف سے ماورائے حس کا عملی اعتراف ہے۔ ایمان بالغیب کے بعد نماز دین کا ستون ہے جو لا تترک بحال ”کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑی جا سکتی“ اور اقامۂ نماز اور قرآنی معاشرے کے قیام کے لیے انفاق کو نماز کے بعد کا درجہ حاصل ہے۔ دوسرے لفظوں میں بندگی، ذکر خدا اور فیاضی پر مشتمل ہے۔ یعنی مومن نمازی معاشرے کا فعال اور فیاض رکن ہوتا ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ﴿۴﴾

۴۔ اور جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا نیز جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا ہے، ان پر ایمان اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔

اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ٭ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴿۵﴾

۵۔یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر (قائم) ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۶﴾

۶۔ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لیے یکساں ہے کہ آپ انہیں متنبہ کریں یا نہ کریں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔

خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ٪﴿۷﴾

۷۔اللہ نے ان کے دلوں اور ان کی سماعت پر مہر لگا دی ہے نیز ان کی نگاہوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ مَا ہُمۡ بِمُؤۡمِنِیۡنَ ۘ﴿۸﴾

۸۔ لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ اور روز آخرت پر ایمان لے آئے، حالانکہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

4 تا 8۔ سلسلۂ کلام میں تین گروہ شامل ہیں۔ پہلا گروہ، وہ لوگ جن پر حق ثابت ہوا اور اس پر ایمان لے آئے۔ یہ متقین کا گروہ ہے۔ دوسرا گروہ وہ لوگ ہیں جن پر حق ثابت ہوا مگر انہوں نے ازرُوئے عناد اسے ماننے سے انکار کر دیا۔یہ ناقابلِ ہدایت ہیں۔ تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جنہیں نہ تو حق پر ایمان لانے کی توفیق ہوئی اور نہ علی الاعلان اس کے انکار کی جرات ہوئی۔ یہ اپنے ضمیر کی آواز کے بھی خلاف ہیں، لہٰذا فکری اضطراب اور ذہنی تشویش کا شکار رہتے ہیں۔ منافقین کی خصوصیات یہ ہیں i۔ وہ بزعم خویش اللہ اور مومنین کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ غیر شعوری طور پر خود دھوکہ کھا رہے ہوتے ہیں۔ ii۔ ان کے دلوں میں بیماری ہوتی ہے، جس سے وہ اعتدال و توازن کھو بیٹھتے ہیں اور بیماری کی وجہ سے انہیں موزوں غذا بھی غیر موزوں اور گوارا طعام بھی ناگوار گزرتا ہے۔ انہیں یہ بیماری خود اپنے عمل کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔ اللہ نے بھی جب انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا تو بیماری کے مہلک جراثیم قانون فطرت کے تحت پھیلنا شروع ہو گئے، لہٰذا اس کی نسبت اللہ کی طرف دینا صرف اس لیے ہے کہ اللہ نے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ البتہ اس کے ذمے دار خود منافقین ہیں۔ iii۔ وہ معاشرے کا امن و سکون برباد کرتے ہیں اور اپنی تخریب کاری کو اصلاح کا نام دیتے ہیں۔ iv۔ وہ ایمان والوں کو نچلے درجے کے لوگ سمجھتے ہیں۔ v۔ وہ باطنی طور پر کچھ ہوتے ہیں اور ظاہری طرز عمل کچھ اور رکھتے ہیں۔ اس سے آگے ان کے سیاہ اعمال کے نتائج کا بیان ہے۔

یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ وَ مَا یَخۡدَعُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ ؕ﴿۹﴾

۹۔ وہ اللہ اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، جبکہ (حقیقت میں) وہ صرف اپنی ذات کو ہی دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں لیکن وہ اس بات کا شعور نہیں رکھتے۔

فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌۢ ۬ۙ بِمَا کَانُوۡا یَکۡذِبُوۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ ان کے دلوں میں بیماری ہے، پس اللہ نے ان کی بیماری اور بڑھا دی اور ان کے لیے دردناک عذاب اس وجہ سے ہے کہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے۔