بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

سورﮤ ابراہیم

یہ سورہ بھی باقی مکی سورتوں کی طرح اصول عقائد پر زیادہ زور دیتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورہ بھی ان دنوں میں نازل ہو رہا تھا جب کفار قریش کی طرف سے ظلم انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ کیونکہ اس سورہ میں ان مشکلات کا ذکر ہے جو انبیاء علیہم السلام کو پیش آئیں۔ اس سورہ میں سرکشوں کے برے انجام اور انبیاء کی فتح و نصرت کا ذکر ہے

الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ لِتُخۡرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ۬ۙ بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ اِلٰی صِرَاطِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَمِیۡدِ ۙ﴿۱﴾

۱۔ الف لام را،یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو ان کے رب کے اذن سے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں، غالب آنے والے قابل ستائش اللہ کے راستے کی طرف۔

1۔ قرآن ضلالت کی تاریکیوں سے ہدایت کے نور کی طرف لے جانے والی کتاب ہے۔ وہ نور خدائے ذوالجلال کا راستہ ہے۔ اس قرآن کی اہمیت کا کیا کہنا کہ یہ انسان کو ابدی راستے کے لیے نور کا کام دیتا ہے اور کل کائنات کے مالک کے دربار تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔

اللّٰہِ الَّذِیۡ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ وَیۡلٌ لِّلۡکٰفِرِیۡنَ مِنۡ عَذَابٍ شَدِیۡدِۣ ۙ﴿۲﴾

۲۔ جس اللہ کی ملکیت میں آسمانوں اور زمین کی تمام موجودات ہیں اور کافروں کے لیے عذاب شدید کی تباہی ہے۔

الَّذِیۡنَ یَسۡتَحِبُّوۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا عَلَی الۡاٰخِرَۃِ وَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ یَبۡغُوۡنَہَا عِوَجًا ؕ اُولٰٓئِکَ فِیۡ ضَلٰلٍۭ بَعِیۡدٍ﴿۳﴾

۳۔ جو آخرت کے مقابلے میں دنیاوی زندگی سے محبت کرتے ہیں اور راہ خدا سے روکتے ہیں اور اس میں انحراف لانا چاہتے ہیں یہ لوگ گمراہی میں دور تک چلے گئے ہیں۔

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمۡ ؕ فَیُضِلُّ اللّٰہُ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿۴﴾

۴۔ ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی قوم کی زبان میں تاکہ وہ انہیں وضاحت سے بات سمجھا سکے پھر اس کے بعد اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہی بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

4۔ اللہ تعالیٰ سامان ہدایت میں کسی قسم کا ابہام اور اتمام حجت میں کسی قسم کا نقص نہیں چھوڑتا۔ چنانچہ اس آیت میں فرمایا: ہم نے تمام رسولوں کو انہی کی قوم کی زبان میں بھیجا ہے تاکہ بات وضاحت کے ساتھ سمجھا سکیں اور ہدایت کی زبان میں کسی قسم کی پیچیدگی اور ابہام نہ رہے۔

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی بِاٰیٰتِنَاۤ اَنۡ اَخۡرِجۡ قَوۡمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ۬ۙ وَ ذَکِّرۡہُمۡ بِاَیّٰىمِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ﴿۵﴾

۵۔ اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا(اور حکم دیا)کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاؤ اور انہیں ایام خدا یاد دلاؤ، ہر صبر و شکر کرنے والے کے لیے یقینا ان میں نشانیاں ہیں۔

اَیّٰىمِ اللّٰہِ سے مراد تاریخ انسانیت کے وہ ایام ہو سکتے ہیں جن میں درس ہائے عبرت اور صبر و شکر کے مواقع موجود ہیں۔ مثلًا فرعون کی غلامی اور اس کے ظلم و ستم کے ایام، صبر و تحمل کے ہیں اور فرعون سے نجات کے ایام، شکر کے ہیں۔ ان ایام میں ایسی نشانیاں موجود ہیں کہ یہ واقعات مکافات کے ایک جامع قانون کے تحت رونما ہوتے ہیں، جن کے پیچھے ایک شعور و ارادہ حاکم ہے اور وہ ارادہ، مشیت الٰہی ہے۔ اس لیے ان نشانیوں کا ادراک صبر و شکر کرنے والے ہی کر سکتے ہیں۔

وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہِ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ اَنۡجٰکُمۡ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَسُوۡمُوۡنَکُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ وَ یُذَبِّحُوۡنَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ یَسۡتَحۡیُوۡنَ نِسَآءَکُمۡ ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکُمۡ بَلَآءٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَظِیۡمٌ ٪﴿۶﴾

۶۔ اور (یاد کیجیے) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اللہ نے تمہیں جس نعمت سے نوازا ہے اسے یاد کرو جب اس نے تمہیں فرعونیوں سے نجات بخشی، وہ تمہیں بدترین عذاب دیتے تھے اور تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ چھوڑتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑا امتحان تھا۔

وَ اِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّکُمۡ لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ وَ لَئِنۡ کَفَرۡتُمۡ اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ﴿۷﴾

۷۔ اور (اے مسلمانو! یاد کرو) جب تمہارے رب نے خبردار کیا کہ اگر تم شکر کرو تو میں تمہیں ضرور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب یقینا سخت ہے۔

7۔ شکر کی صورت میں زیادہ کے وعدے کو تاکیدی لفظوں لام اور نون تاکید کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ شکر کی صورت میں اضافہ و فراوانی اللہ کا ایک لازمی قانون ہے، جو خود اپنی جگہ ایک رحمت ہے۔ جبکہ نا شکری کی صورت میں عذاب کے لیے تاکیدی الفاظ اختیار نہیں فرمائے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کفرانِ نعمت کی صورت میں عذاب ایک لازمی قانون نہیں ہے اور یہاں عفو کے لیے گنجائش ہے۔ اسی لیے لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ فرمایا، لاعذبنکم نہیں فرمایا۔ نعمتوں پر شکر کرنا ایک صحیح طرز فکر، متوازن سوچ اور اعلیٰ قدروں کا مالک ہونے کی دلیل ہے۔ ایسے لوگ نعمتوں کی قدر دانی کرتے ہیں۔

امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے: شُکْرُ النِّعْمَۃِ اجْتِنَابُ الْمَحَارِمِِ وَ تَمَامُ الشُّکْرِ قَوْلُ الرَّجُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ۔ حرام چیزوں سے اجتناب ہی نعمت کا شکر ہے اور شکر اس وقت پورا ہو جاتا ہے، جب بندہ کہ دے: اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۔

وَ قَالَ مُوۡسٰۤی اِنۡ تَکۡفُرُوۡۤا اَنۡتُمۡ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ حَمِیۡدٌ﴿۸﴾

۸۔ اور موسیٰ نے کہا: اگر تم اور زمین میں بسنے والے سب ناشکری کریں تو بھی اللہ یقینا بے نیاز، لائق حمد ہے۔

8۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اس نکتے سے بھی آگاہ کیا کہ اللہ تمہارے شکر کا محتاج نہیں ہے۔ شکر کا فائدہ اللہ کو نہیں خود تمہیں پہنچتا ہے اور نا شکری سے اللہ کو نہیں خود تمہیں ضرر پہنچ جاتا ہے۔ اللہ ہر صورت میں قابل ستائش ہے خواہ تم اس کی حمد کرو یا نہ کرو۔

اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ نَبَؤُا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ قَوۡمِ نُوۡحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوۡدَ ۬ؕۛ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ ؕۛ لَا یَعۡلَمُہُمۡ اِلَّا اللّٰہُ ؕ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَرَدُّوۡۤا اَیۡدِیَہُمۡ فِیۡۤ اَفۡوَاہِہِمۡ وَ قَالُوۡۤا اِنَّا کَفَرۡنَا بِمَاۤ اُرۡسِلۡتُمۡ بِہٖ وَ اِنَّا لَفِیۡ شَکٍّ مِّمَّا تَدۡعُوۡنَنَاۤ اِلَیۡہِ مُرِیۡبٍ﴿۹﴾ ۞ؓ

۹۔ کیا تمہارے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں(مثلاً) نوح، عاد اور ثمود کی قوم اور جو ان کے بعد آئے جن کا علم صرف اللہ کے پاس ہے؟ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے منہ پر رکھ دیے اور کہنے لگے: ہم تو اس رسالت کے منکر ہیں جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو اس میں ہم شبہ انگیز شک میں ہیں۔

9۔ بظاہر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سلسلہ کلام جاری ہے اور اپنی قوم سے اَیّٰىمِ اللّٰہِ کا تفصیلی ذکر فرما رہے ہیں اور نوح عاد اور ثمود کی اقوام کا ذکر بعنوان مثال آیا ہے، جن کی تاریخ اور تفصیلی علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ ان اقوام نے اپنے پیغمبران علیہم السلام کا اس طرح مقابلہ کیا کہ انبیاء علیہ السلام کو آزادی سے بات کرنے کا موقع نہیں دیتے تھے۔

قَالَتۡ رُسُلُہُمۡ اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ یَدۡعُوۡکُمۡ لِیَغۡفِرَ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ وَ یُؤَخِّرَکُمۡ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ قَالُوۡۤا اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَا ؕ تُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَصُدُّوۡنَا عَمَّا کَانَ یَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَا فَاۡتُوۡنَا بِسُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ﴿۱۰﴾

۱۰۔ ان کے رسولوں نے کہا: کیا (تمہیں) اس اللہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟ وہ تمہیں اس لیے دعوت دیتا ہے تاکہ تمہارے گناہ بخش دے اور ایک معین مدت تک تمہیں مہلت دے، وہ کہنے لگے: تم تو ہم جیسے بشر ہو تم ہمیں ان معبودوں سے روکنا چاہتے ہو جن کی ہمارے باپ دادا پوجا کرتے تھے، پس اگر کوئی کھلی دلیل ہے تو ہمارے پاس لے آؤ۔

10۔ دعوت انبیاء درحقیقت اللہ کی رحمت کی طرف دعوت ہے: یَدۡعُوۡکُمۡ لِیَغۡفِرَ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ (ابراہیم : 10) وہ تمہیں اس لیے دعوت دیتا ہے تاکہ وہ تمہارے گناہ بخش دے۔

اللہ کے ہاں مدت کا تعین قوموں کے اوصاف کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ ایک اچھی قوم اگر اپنے اندر بگاڑ پیدا کرے تو اس کی مہلت عمل اٹھا دی جاتی ہے اور اسے تباہ کر دیا جاتا ہے اور ایک بگڑی ہوئی قوم اگر اپنے برے اوصاف کو اچھے اوصاف میں بدل لے تو اس کی مہلت عمل بڑھا دی جاتی ہے۔ (تفہیم القرآن)

بدا یہی ہے جس کے تمام مفسرین قائل ہیں۔