بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

اَلۡہٰکُمُ التَّکَاثُرُ ۙ﴿۱﴾

۱۔ ایک دوسرے پر فخر نے تمہیں غافل کر دیا ہے،

1۔ مال و دولت اور افرادی قوت میں کثرت سے ایک دوسرے پر فخر و مباہات نے تم کو اصل مقصد سے غافل کر دیا۔ کثرت مباہات کے سلسلے میں تم قبروں تک کے لوگوں کو شمار کرنے قبرستان پہنچ جاتے ہو۔ دوسری تشریح یہ بھی کی گئی ہے: یہاں تک کہ تم قبروں کے دہانے تک پہنچ جاتے ہو۔

حَتّٰی زُرۡتُمُ الۡمَقَابِرَ ؕ﴿۲﴾

۲۔ یہاں تک کہ تم قبروں کے پاس تک جا پہنچے ہو۔

کَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ۙ﴿۳﴾

۳۔ ہرگز نہیں! تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا۔

ثُمَّ کَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ؕ﴿۴﴾

۴۔ پھر ہرگز نہیں ! تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا۔

کَلَّا لَوۡ تَعۡلَمُوۡنَ عِلۡمَ الۡیَقِیۡنِ ؕ﴿۵﴾

۵۔ ہرگز نہیں! کاش تم یقینی علم رکھتے،

5۔ اگر تمہیں یقین حاصل ہوتا تو ایسا لگتا جیسے جہنم دیکھ رہے ہو یا یہ تم جہنم کو اپنی بصیرت سے دیکھ لیتے۔

لَتَرَوُنَّ الۡجَحِیۡمَ ۙ﴿۶﴾

۶۔ تو تم ضرور جہنم کو دیکھ لیتے۔

ثُمَّ لَتَرَوُنَّہَا عَیۡنَ الۡیَقِیۡنِ ۙ﴿۷﴾

۷۔ پھر اسے یقین کی آنکھوں سے دیکھ لیتے،

ثُمَّ لَتُسۡـَٔلُنَّ یَوۡمَئِذٍ عَنِ النَّعِیۡمِ ٪﴿۸﴾

۸۔ پھر اس روز تم سے نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

8۔ اہل سنت کے مصادر میں آیا ہے کہ اس آیت میں نعمت سے مراد کھجور اور ٹھنڈا پانی ہے۔ امامیہ مصادر میں آیا ہے: نَّعِیۡمِ سے مراد محمد و آل محمد علیہ السلام کی محبت ہے۔ (الکافی 6: 280)