وَ لَئِنۡ اَرۡسَلۡنَا رِیۡحًا فَرَاَوۡہُ مُصۡفَرًّا لَّظَلُّوۡا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ یَکۡفُرُوۡنَ﴿۵۱﴾

۵۱۔ اور اگر ہم ایسی ہوا بھیجیں جس سے وہ کھیتی کو زرد ہوتے دیکھ لیں تو وہ اس کے بعد ناشکری کرنے لگتے ہیں۔

51۔ پچھلی نعمتوں کو فراموش کرتے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کی مشروط بندگی کرتے ہیں۔ یعنی بشرط خوشحالی اللہ کی بندگی کرتے ہیں۔

فَاِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی وَ لَا تُسۡمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوۡا مُدۡبِرِیۡنَ﴿۵۲﴾

۵۲۔ آپ یقینا مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ ان بہروں کو (اپنی) پکار سنا سکتے ہیں جب کہ وہ پشت پھیرے جا رہے ہوں۔

52۔ یعنی جو لوگ ہدایت کے اہل نہیں ہیں، انہیں آپ بزور ہدایت نہیں دے سکتے۔ جیسا کہ اللہ ارحم الراحمین ہے۔ لیکن اگر کوئی رحمت خدا کے لیے اہل نہیں ہے تو اللہ کی رحمت اس کے شامل حال نہیں ہو سکتی۔

وَ مَاۤ اَنۡتَ بِہٰدِ الۡعُمۡیِ عَنۡ ضَلٰلَتِہِمۡ ؕ اِنۡ تُسۡمِعُ اِلَّا مَنۡ یُّؤۡمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَہُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ﴿٪۵۳﴾

۵۳۔ اور نہ ہی آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے نکال کر ہدایت دے سکتے ہیں، آپ صرف انہیں سنا سکتے ہیں جو ہماری نشانیوں پر ایمان لاتے ہیں اور فرمانبردار ہیں۔

اَللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ ضُؔعۡفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنۡۢ بَعۡدِ ضُؔعۡفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنۡۢ بَعۡدِ قُوَّۃٍ ضُؔعۡفًا وَّ شَیۡبَۃً ؕ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ۚ وَ ہُوَ الۡعَلِیۡمُ الۡقَدِیۡرُ﴿۵۴﴾

۵۴۔ اللہ وہ ہے جس نے کمزور حالت سے تمہاری تخلیق (شروع) کی پھر کمزوری کے بعد قوت بخشی پھر قوت کے بعد کمزور اور بوڑھا کر دیا، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ بڑا جاننے والا صاحب قدرت ہے۔

54۔ اور انسان جو نہایت کمزور جرثومہ، کمزور بوند، کمزور جنین اور کمزور شیر خوار بچہ تھا، بعد میں کچھ طاقت و قوت کا مالک بن جاتا ہے، جس میں یہ نادان انسان اپنے ماضی اور مستقبل سے غافل ہوتا ہے، اتنے میں پھر ضعیفی اسے آ لیتی ہے۔

وَ یَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَۃُ یُقۡسِمُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ ۬ۙ مَا لَبِثُوۡا غَیۡرَ سَاعَۃٍ ؕ کَذٰلِکَ کَانُوۡا یُؤۡفَکُوۡنَ﴿۵۵﴾

۵۵۔ اور جس روز قیامت برپا ہو گی مجرمین قسم کھائیں گے کہ وہ (دنیا میں) گھڑی بھر سے زیادہ نہیں رہے، وہ اسی طرح الٹے چلتے رہتے تھے۔

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ وَ الۡاِیۡمَانَ لَقَدۡ لَبِثۡتُمۡ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ اِلٰی یَوۡمِ الۡبَعۡثِ ۫ فَہٰذَا یَوۡمُ الۡبَعۡثِ وَ لٰکِنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۵۶﴾

۵۶۔ اور جنہیں علم اور ایمان دیا گیا تھا وہ کہیں گے: نوشتہ خدا کے مطابق یقینا تم قیامت تک رہے ہو اور یہی قیامت کا دن ہے لیکن تم جانتے نہیں تھے۔

55۔56 اہل علم و ایمان دنیاوی زندگی کے مراحل سے آگاہ ہوتے ہیں کہ یہ ایک سفر ہے اور منزل ان کے سامنے ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ مرنے کے بعد کے مراحل سے بھی آگاہ ہوتے ہیں، جبکہ جو لوگ علم و ایمان سے محروم ہیں، وہ اس زندگی کے مراحل اور منازل سے بے خبر ہوتے ہیں اور مرنے کے بعد کے مراحل سے بھی بے خبر ہوتے ہیں۔ قیامت برپا ہوتے ہی دنیاوی زندگی جو اس نے عیش و عشرت اور لاپرواہی میں گزاری ہے، ایک گھڑی سے زیادہ معلوم نہیں ہو گی۔

ان آیات سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو حیات برزخی حاصل نہیں تھی، وہ یہ خیال کریں گے کہ مرنے کے بعد فوراً اٹھائے گئے ہیں۔ جیسا کہ سورہ یس میں فرمایا: مَنۡۢ بَعَثَنَا مِنۡ مَّرۡقَدِنَا ہم کو ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھایا۔

جبکہ اہل علم و ایمان کو حیات برزخی حاصل تھی۔ ان کو اس مدت کا اندازہ ہے جو ان کی موت اور قیامت کے درمیان گزری ہے۔ اس لیے یہ اہل علم و ایمان دوسروں سے کہیں گے: وَ لٰکِنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ۔ لیکن تم جانتے نہیں تھے۔

فَیَوۡمَئِذٍ لَّا یَنۡفَعُ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مَعۡذِرَتُہُمۡ وَ لَا ہُمۡ یُسۡتَعۡتَبُوۡنَ﴿۵۷﴾

۵۷۔ پس اس دن ظالموں کو ان کی معذرت کوئی فائدہ نہ دے گی اور نہ ان سے معافی مانگنے کے لیے کہا جائے گا۔

وَ لَقَدۡ ضَرَبۡنَا لِلنَّاسِ فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ ؕ وَ لَئِنۡ جِئۡتَہُمۡ بِاٰیَۃٍ لَّیَقُوۡلَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا مُبۡطِلُوۡنَ﴿۵۸﴾

۵۸۔ اور بتحقیق ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر طرح کی مثال بیان کی ہے اور اگر آپ ان کے سامنے کوئی نشانی پیش کر بھی دیں تو کفار ضرور کہیں گے: تم تو صرف باطل پر ہو۔

58۔ حالانکہ قرآن نے مختلف اسالیب میں واضح الفاظ اور محسوس و مشاہداتی مثالوں کے ساتھ ان پر حجت پوری کی ہے۔

کَذٰلِکَ یَطۡبَعُ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۵۹﴾

۵۹۔ اس طرح اللہ ان لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے جو علم نہیں رکھتے۔

59۔ جب اللہ کسی کو ناقابل ہدایت دیکھ کر اس سے ہاتھ اٹھاتا ہے اور اس کو اپنے حال پر چھوڑتا ہے تو اللہ کے علاوہ کوئی اور اسے ہدایت نہیں دے سکتا۔ اسی مطلب کو ”مہر لگا دیتا ہے“ کی تعبیر سے بیان فرماتا ہے۔

فَاصۡبِرۡ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ لَا یَسۡتَخِفَّنَّکَ الَّذِیۡنَ لَا یُوۡقِنُوۡنَ﴿٪۶۰﴾

۶۰۔ پس (اے نبی) آپ صبر کریں، یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے اور جو لوگ یقین نہیں رکھتے وہ آپ کو سبک نہ پائیں۔

60۔ یعنی آپ کو دشمن ایسا سبک نہ پائیں کہ آپ ان کی دھمکیوں، ان کے طعنوں، تمسخروں سے بے حوصلہ ہو جائیں، بلکہ دشمن کی تمام تر سازشوں کے مقابلے آپ کے عزم و ارادے میں مزید مضبوطی آنی چاہیے واضح رہے کہ یہ کوئی حکم تشریعی نہیں ہے، بلکہ امر تکوینی ہے، جو حتماً وقوع پذیر ہو گا۔