قَالُوۡۤا اَنُؤۡمِنُ لَکَ وَ اتَّبَعَکَ الۡاَرۡذَلُوۡنَ﴿۱۱۱﴾ؕ

۱۱۱۔ انہوں نے کہا: ہم تم پر کیسے ایمان لے آئیں جب کہ ادنیٰ درجے کے لوگ تمہارے پیروکار ہیں۔

111۔ادنیٰ درجے سے مراد مادی اور مالی اعتبار سے ہے، کیونکہ فقیر اور نادار لوگ ہمیشہ دعوت انبیاء پر لبیک کہنے میں پہل کرتے ہیں۔ جن کے دلوں پر مال و دولت کا پردہ اور خواہشات کی میل کچیل نہیں ہوتی وہی دعوت انبیاء قبول کرتے ہیں، جبکہ خوشحال لوگ ہمیشہ اس دعوت کے مخالف رہے ہیں۔ کیونکہ انبیاء کی دعوت عدل کی دعوت ہے اور مجرم لوگ عدل کے حق میں نہیں ہوتے۔اس لیے اس دعوت پر لبیک، نادار لوگ کہتے ہیں یا نوجوان لوگ، جنہوں نے ابھی مفادات کے میدان میں قدم نہیں رکھا ہوتا۔

قَالَ وَ مَا عِلۡمِیۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۱۲﴾ۚ

۱۱۲۔نوح نے کہا: مجھے علم نہیں وہ کیا کرتے رہے ہیں۔

اِنۡ حِسَابُہُمۡ اِلَّا عَلٰی رَبِّیۡ لَوۡ تَشۡعُرُوۡنَ﴿۱۱۳﴾ۚ

۱۱۳۔ ان کا حساب تو صرف میرے رب کے ذمے ہے، کاش تم اسے سمجھتے۔

113۔ بعض نے کہا ہے: کافروں کا مقصد یہ کہنا تھا کہ یہ لوگ پیشے کے ساتھ کردار میں بھی کمتر درجے کے لوگ ہیں۔ اس توجیہ سے آیات میں ربط معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا: ایمان لانے سے پہلے وہ کیا کرتے رہے، اس کا مجھے علم نہیں ہے۔ ان کا حساب اللہ کے پاس ہے۔ یعنی ایمان سے ان کے سابقہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۱۴﴾ۚ

۱۱۴۔ اور میں مومنوں کو دھتکار نہیں سکتا۔

114۔ ایمان لانے کے بعد رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور رسول علیہ السلام کا رب اپنی درگاہ سے کسی کو نہیں دھتکارتے۔

اِنۡ اَنَا اِلَّا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ﴿۱۱۵﴾ؕ

۱۱۵۔ میں تو صرف صاف اور صریح انداز میں تنبیہ کرنے والا ہوں۔

قَالُوۡا لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَہِ یٰنُوۡحُ لَتَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمَرۡجُوۡمِیۡنَ﴿۱۱۶﴾ؕ

۱۱۶۔ ان لوگوں نے کہا: اے نوح! اگر تم باز نہ آئے تو تمہیں ضرور سنگسار کر دیا جائے گا۔

قَالَ رَبِّ اِنَّ قَوۡمِیۡ کَذَّبُوۡنِ﴿۱۱۷﴾ۚۖ ۞ؒ

۱۱۷۔ نوح نے کہا: اے میرے رب! بتحقیق میری قوم نے میری تکذیب کی ہے۔

فَافۡتَحۡ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَہُمۡ فَتۡحًا وَّ نَجِّنِیۡ وَ مَنۡ مَّعِیَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۱۸﴾

۱۱۸۔ پس تو ہی میرے اور ان کے درمیان حتمی فیصلہ فرما اور مجھے اور جو میرے ساتھ مؤمنین ہیں ان کو نجات دے۔

118۔ فۡتَحۡ یعنی فیصلہ کن حکم کے ذریعے حقیقت کا چہرہ کھول دے۔

وَ مَنۡ مَّعِیَ : جو میری معیت میں ہیں۔ قرآن انبیاء علیہ السلام کے ساتھیوں کو معیت کے ساتھ تعبیر فرماتا ہے۔ جو ہر قدم پر ساتھ دینے کے معنوں میں ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ ہر قدم پر ساتھ ہوتا ہے تو کہتے ہیں: اِنَّ مَعِیَ رَبِّیۡ سَیَہۡدِیۡنِ (شعراء:62) میرا رب میرے ساتھ ہے، میری رہنمائی کرے گا۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (توبہ: 40) اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ (الفتح: 29) محمد اللہ کے رسول اور ان کی معیت میں جو لوگ ہیں وہ کفار پر سخت گیر اور آپس میں مہربان ہیں۔ یعنی ان لوگوں کا ذکر ہے جو ہر قدم پر ساتھ دیتے ہیں۔ مزید تشریح کے لیے الفتح: 29 ملاحظہ فرمائیں۔

فَاَنۡجَیۡنٰہُ وَ مَنۡ مَّعَہٗ فِی الۡفُلۡکِ الۡمَشۡحُوۡنِ﴿۱۱۹﴾ۚ

۱۱۹۔ چنانچہ ہم نے انہیں اور جو ان کے ہمراہ بھری کشتی میں سوار تھے سب کو بچا لیا۔

ثُمَّ اَغۡرَقۡنَا بَعۡدُ الۡبٰقِیۡنَ﴿۱۲۰﴾ؕ

۱۲۰۔ اس کے بعد ہم نے باقی سب کو غرق کر دیا۔