اِنَّمَا کَانَ قَوۡلَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذَا دُعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴿۵۱﴾

۵۱۔ جب مومنوں کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو مومنوں کا قول تو بس یہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں: ہم نے سن لیا اور اطاعت کی اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَخۡشَ اللّٰہَ وَ یَتَّقۡہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ﴿۵۲﴾

۵۲۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے اور اللہ سے ڈرتا اور اس (کی نافرمانی) سے بچتا ہے تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہوں گے۔

وَ اَقۡسَمُوۡا بِاللّٰہِ جَہۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ لَئِنۡ اَمَرۡتَہُمۡ لَیَخۡرُجُنَّ ؕ قُلۡ لَّا تُقۡسِمُوۡا ۚ طَاعَۃٌ مَّعۡرُوۡفَۃٌ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۵۳﴾

۵۳۔ اور یہ لوگ اللہ کی کڑی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر آپ انہیں حکم دیں تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے، ان سے کہدیجئے: تم قسمیں نہ کھاؤ، اچھی اطاعت (قسم سے بہتر) ہے، بتحقیق اللہ کو تمہارے اعمال کا ۔خوب علم ہے۔

53۔ یہ لوگ آپ کو یقین دلانے کے لیے کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر آپ حکم دیں تو ہم جنگ کے لیے ضرور نکل کھڑے ہوں گے۔ ایسے لوگوں سے فرمایا: قسمیں مت کھاؤ۔ طَاعَۃٌ مَّعۡرُوۡفَۃٌ ۔ جنگ میں نکلنا ایک کھلی اطاعت ہے۔ وقت آنے پر معلوم ہو جائے گا۔ یا یہ معنی ہیں: تمہاری اطاعت کا حال معلوم ہے۔ تیسرے معنی یہ کیے گئے ہیں: یہ ایک واجب اطاعت ہے قسم کی ضرورت نہیں ہے۔

قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا عَلَیۡہِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَیۡکُمۡ مَّا حُمِّلۡتُمۡ ؕ وَ اِنۡ تُطِیۡعُوۡہُ تَہۡتَدُوۡا ؕ وَ مَا عَلَی الرَّسُوۡلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ﴿۵۴﴾

۵۴۔ کہدیجئے: اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر تم نے منہ موڑ لیا تو سمجھ لو کہ جو بار رسول پر رکھا گیا ہے اس کے وہ ذمے دار ہیں اور جو بار تم پر رکھا گیا ہے اس کے تم ذمے دار ہو اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے اور رسول کی ذمے داری تو صرف یہ ہے کہ واضح انداز میں تبلیغ کریں۔

54۔ اگر تم نے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت نہ کی تو اس میں رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قطعاً کوئی نقصان نہیں ہے۔ کیونکہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر تمہاری ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ صرف واضح انداز میں تبلیغ کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ﴿۵۵﴾

۵۵۔ تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا اور جس دین کو اللہ نے ان کے لیے پسندیدہ بنایا ہے اسے پائدار ضرور بنائے گا اور انہیں خوف کے بعد امن ضرور فراہم کرے گا، وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس کے بعد بھی جو لوگ کفر اختیار کریں گے پس وہی فاسق ہیں۔

55۔ خلافت سے مراد صرف غلبہ اور اقتدار نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں، بلکہ جس خلافت کا اس آیت میں وعدہ دیا جا رہا ہے وہ درج ذیل اصولوں پر قائم ہے۔ i ایمان۔ii عمل صالح iii۔ ان کے پسندیدہ دین کی پائداری۔iv خوف کے بعد امن۔ v شرک سے پاک خالص اللہ کی بندگی۔ لہذا ہر منصف اس آیت سے یہ نتیجہ اخذ کرے گا کہ اس آیت میں ان لوگوں کی بات ہو رہی ہے جن کے اقتدار کے سائے میں دین کو استحکام ملے گا۔ واضح رہے حکومت کا استحکام اور ہے اور دین کا استحکام اور ہے، بلکہ مسلمانوں کا استحکام اور ہے اور اسلام کا استحکام اور ہے۔ ممکن ہے کسی دور میں اسلام کے زرین اصولوں کے استحکام کے لیے جنگ لڑی جا رہی ہو، مسلمانوں میں بے چینی ہو، لیکن اسلام کو تحفظ مل رہا ہو۔ چنانچہ یہ بھی ممکن ہے کہ مسلمانوں کی حکومت کو تو استحکام ہو لیکن اسلامی اصول پامال ہو رہے ہوں اور دین کی تمکین و استحکام، اس کے نظام عدل و انصاف کا قیام، ہر قسم کے ظلم و زیادتی کو جڑ سے اکھاڑ دینا اور ہر قسم کے شرک سے پاک اللہ کی بندگی ہے اور ظہورمہدی (عج) کے بعد ہی یہ وعدہ پورا ہو سکتا ہے۔

وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ﴿۵۶﴾

۵۶۔ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

56۔ اللہ کی رحمت کے شامل حال ہونے کے لیے نماز، زکوٰۃ اور اطاعت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شرط ہے۔یہاں تین رابطوں کا ذکر ہے۔ نماز سے اللہ کے ساتھ، زکوٰۃ سے لوگوں کے ساتھ اور اطاعت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زمین پر اللہ کی حکومت کے ساتھ۔ ان تین رابطوں کے استوار ہونے کے بعد بندہ قابل رحمت بنتا ہے۔

لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مُعۡجِزِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَ مَاۡوٰىہُمُ النَّارُ ؕ وَ لَبِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ﴿٪۵۷﴾

۵۷۔ آپ یہ خیال نہ کریں کہ کافر لوگ زمین میں ( ہمیں) عاجز بنا دیں گے اور ان کا ٹھکانا جہنم ہو گا جو بدترین ٹھکانا ہے۔

57۔ یہ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے ایک خوش خبری ہے کہ کافر آپ کا راستہ نہیں روک سکیں گے بلکہ وہ نابود ہو کر جہنم رسید ہو جائیں گے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِیَسۡتَاۡذِنۡکُمُ الَّذِیۡنَ مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَبۡلُغُوا الۡحُلُمَ مِنۡکُمۡ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ ؕ مِنۡ قَبۡلِ صَلٰوۃِ الۡفَجۡرِ وَ حِیۡنَ تَضَعُوۡنَ ثِیَابَکُمۡ مِّنَ الظَّہِیۡرَۃِ وَ مِنۡۢ بَعۡدِ صَلٰوۃِ الۡعِشَآءِ ۟ؕ ثَلٰثُ عَوۡرٰتٍ لَّکُمۡ ؕ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ وَ لَا عَلَیۡہِمۡ جُنَاحٌۢ بَعۡدَہُنَّ ؕ طَوّٰفُوۡنَ عَلَیۡکُمۡ بَعۡضُکُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ﴿۵۸﴾

۵۸۔ اے ایمان والو! ضروری ہے کہ تمہارے مملوک اور وہ بچے جو ابھی بلوغ کی حد کو نہیں پہنچے ہیں تین اوقات میں تم سے اجازت لے کر آیا کریں، فجر کی نماز سے پہلے اور دوپہر کو جب تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد، یہ تین اوقات تمہارے پردے کے ہیں، ان کے بعد ایک دوسرے کے پاس بار بار آنے میں نہ تم پر کوئی حرج ہے اور نہ ان پر، اللہ اس طرح تمہارے لیے نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔

58۔ جب یہ حکم آیا کہ لوگوں کے گھروں میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہوں، تو اس میں کچھ حالات استثنائی ہیں، جن کا اس آیت میں ذکر ہے۔ وہ حالات یہ ہیں: 1۔ گھر کے غلام۔ 2۔ نا بالغ بچے۔ یہ دونوں گھر میں طَوّٰفُوۡنَ عَلَیۡکُمۡ ہیں جو بار بار تمہارے پاس آتے رہتے ہیں۔ انہیں ہر بار اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ تین اوقات تمہارے تخلیے کے ہوتے ہیں، ان میں یہ دونوں بھی اجازت کے بغیر تمہارے پاس داخل نہ ہوں۔

ثَلٰثُ عَوۡرٰتٍ لَّکُمۡ : العورۃ اصل میں عار سے مشتق ہے۔ مقام ستر کے کھلنے سے عار محسوس ہوتا ہے اور بے ستر ہونا عار و ننگ ہے۔ اس لیے عورت کو عورت کہتے ہیں۔

وَ اِذَا بَلَغَ الۡاَطۡفَالُ مِنۡکُمُ الۡحُلُمَ فَلۡیَسۡتَاۡذِنُوۡا کَمَا اسۡتَاۡذَنَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ﴿۵۹﴾

۵۹۔۔اور جب تمہارے بچے بلوغ کو پہنچ جائیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اجازت لیا کریں جس طرح پہلے (ان کے بڑے) لوگ اجازت لیا کرتے تھے، اس طرح اللہ اپنی آیات تمہارے لیے بیان کرتا ہے اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔

وَ الۡقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآءِ الّٰتِیۡ لَا یَرۡجُوۡنَ نِکَاحًا فَلَیۡسَ عَلَیۡہِنَّ جُنَاحٌ اَنۡ یَّضَعۡنَ ثِیَابَہُنَّ غَیۡرَ مُتَبَرِّجٰتٍۭ بِزِیۡنَۃٍ ؕ وَ اَنۡ یَّسۡتَعۡفِفۡنَ خَیۡرٌ لَّہُنَّ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ﴿۶۰﴾

۶۰۔ اور جو عورتیں (ـضعیف العمری کی وجہ سے) خانہ نشین ہو گئی ہوں اور نکاح کی توقع نہ رکھتی ہوں ان کے لیے اپنے (حجاب کے) کپڑے اتار دینے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ زینت کی نمائش کرنے والیاں نہ ہوں تاہم عفت کا پاس رکھنا ان کے حق میں بہتر ہے اور اللہ بڑا سننے والا، خوب جاننے والا ہے۔

60۔ یعنی وہ ضعیف العمر عورتیں جن کی خواہشات ختم ہو چکی ہوں اور ان کو دیکھنے سے مردوں کی خواہشات بیدار نہ ہوتی ہوں، ان کے لیے پردہ نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں تاہم پردہ کرنا ان کے وقار کے لیے بہتر ہے۔