آیات 5 - 7
 

فَاَمَّا مَنۡ اَعۡطٰی وَ اتَّقٰی ۙ﴿۵﴾

۵۔ پس جس نے (راہ خدا میں) مال دیا اور تقویٰ اختیار کیا،

وَ صَدَّقَ بِالۡحُسۡنٰی ۙ﴿۶﴾

۶۔ اور اچھی بات کی تصدیق کی۔

فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلۡیُسۡرٰی ؕ﴿۷﴾

۷۔ پس ہم اسے جلد ہی آسانی کے اسباب فراہم کریں گے۔

تفسیر آیات

انسان کے مختلف اعمال میں سے ان تین مثبت اعمال کا ذکر ہے جو عمل کرنے والے کے لیے تقدیر ساز ہیں:

الف: اَعۡطٰی: عطا کرے۔ اس جگہ یہ نہیں فرمایا کہ کیا عطا کرے، کہاں خرچ کرے۔ صرف دینے کا ذکر ہے۔ جس سے عطا کی عمومیت کا مفہوم نکلتا ہے کہ وہ عطا مالی ہو، علمی ہو، خدمات ہوں یا فکری۔ سب اس میں شامل ہیں۔ بندہ فیاض ہونا چاہیے ہر میدان میں۔

ب: وَ اتَّقٰی: تقویٰ اختیار کرے۔ یعنی اپنے آپ کو ضرر رساں چیزوں سے بچائے رکھے۔ اللہ کے غضب سے، ناراضی سے، عذاب سے بچائے رکھے۔ تقویٰ کے اہم اثرات میں سے ہے مشکلات کا آسان ہونا اور بند گلی میں نہ پھنسنا:

وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا ﴿﴾ (۶۵ طلاق۔۲)

اور جو اللہ سے ڈرتا رہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے،

دوسری جگہ فرمایا:

وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ اَمۡرِہٖ یُسۡرًا﴿﴾ (۶۵ طلاق: ۴)

اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے معاملے میں آسانی پیدا کر دیتا ہے۔

ج: وَ صَدَّقَ: اچھی باتوں کی تصدیق کرے خواہ یہ اچھی باتیں عقائد و نظریات سے متعلق ہوں جیسے توحید و رسالت، امامت و آخرت یا اخلاقیات یا احکام سے۔ الحسنی ایک وسیع مفہوم کا حامل ہے جس میں شرعی، عقلی اور عرفی بھلائی سب شامل ہیں۔ چنانچہ کوئی اچھا کام کر رہاہے تو اس کی تصدیق اور اگر کوئی برا کام کر رہا ہے تو اس کی تردید، دونوں حسنی بھلائی ہیں۔

د: فَسَنُیَسِّرُہٗ: ان مذکورہ تین صفات کے حامل افراد کو اللہ تعالیٰ آسانیاں فراہم فرمائے گا کہ وہ جب بھی کوئی کارخیر انجام دینا چاہیں اس کی انجام دہی میں کوئی دشواری نہیں آنے دی جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو ہر کارخیر کی توفیق عنایت کرے گا۔ توفیق کا مطلب یہ ہے کہ کسی نیک کام کی انجام دہی کے لیے وسائل و اسباب کا نزدیک کر دینا۔

متقی انسان کے لیے روزہ رکھنا، مال خرچ کرنا، ہر قسم کی قربانی دینا آسان ہو جائے گا چونکہ اس کے اندر جو جذبہ اور ایمانی محرک کار فرما ہے اس سے یہ سارے کام آسانی سے انجام پاتے ہیں جب کہ ایسا نہ ہو تو دو رکعت نماز پڑھنا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت ہے:

اِذَا اَحَبَّ اللہُ عَبْداً اَلْھَمَہُ الطَّاعَۃَ وَ اَلْزَمَہُ الْقَنَاعَۃَ وَ فَقَّھَہُ فِی الدِّینِ وَ قَرَّاہُ بِالْیَقِینِ وَ اکْتَفَی بِالْکَفَافِ وَ اکْتَنَی بِالْعَفَافِ۔۔۔۔ (مستدرک الوسائل ۱۳: ۳۶)

اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اس پر طاعت کا الہام کرتا ہے اور قناعت کا پابند کر دیتا ہے اور دین میں سمجھ عنایت فرماتا ہے اور یقین کے ساتھ اس کی تقویت کر دیتا ہے۔ کفایت شعار اور پاکدامن کر دیتا ہے۔


آیات 5 - 7