آیت 100
 

وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ﴿۱۰۰﴾

۱۰۰۔ اور مہاجرین و انصار میں سے جن لوگوں نے سب سے پہلے سبقت کی اور جو نیک چال چلن میں ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں وہ ابد تک ہمیشہ رہیں گے یہی عظیم کامیابی ہے۔

تفسیر آیات

انصار و مہاجرین کے فی الواقع چار گروہ بنتے ہیں۔ ان میں سے اہل نفاق کا ذکر آنے کے بعد باقی اہل ایمان کو تین گروہ میں تقسیم فرمایا:

۱۔ وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ: مہاجرین میں سابقین اولین ان اصحاب کو کہتے ہیں جو اپنا وطن (مکہ) چھوڑ کر رسول اللہؐ کی اطاعت میں مدینہ آئے۔ سابقین اولین مہاجرین ہیں جو جنگ بدر سے پہلے ایمان لے آئے اور ہجرت کی۔ بدر کے موقع پر نفاق شروع ہوگیا تھا۔ چنانچہ سورۂ انفال میں ذکر ہوا:

اِذۡ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ غَرَّہٰۤؤُ لَآءِ دِیۡنُہُمۡ ۔۔۔۔(۸ انفال : ۴۹)

جب (ادھر) منافقین اور جن کے دلوں میں بیماری تھی کہ رہے تھے: انہیں تو ان کے دین نے دھوکا دے رکھا ہے۔۔۔۔

اور جنگ بدر ۲ھ میں ہوئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہجرت کے دوسرے سال نفاق شروع ہوگیا تھا۔

لہٰذا سابقین اولین میں وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے حبشہ اور مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ اس دین حق کے اختیار کرنے کے جرم میں مصائب و آلام برداشت کیے۔ دین کی بنیادوں کو استوار کر دیا اور ناقابل تحمل اذیتوں کو برداشت کیا۔ ان میں سب سے پہلے جنہوں نے ایمان لانے میں سبقت کی ہے، عورتوں میں حضرت خدیجہؓ اور مردوں میں حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ چنانچہ حاکم ابو عبد اللہ کا یہ مؤقف مشہور ہے:

لا اعلم خلافا بین اصحاب التواریخ ان علیاً اولہم اسلاماً ۔ (تفسیر قرطبی ۸ : ۲۳۶)

علمائے تاریخ میں اس بات پر کوئی اختلاف میرے علم میں نہیں ہے کہ علی نے ان میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا ہے۔

صاحب المنار کا مؤقف یہ ہے: سب سے پہلے علی الاطلاق حضرت خدیجہ نے اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد آپؐ کے گھر کے افراد میں سے حضرت علیؑ اور زید بن حارثہؓ نے اور گھر سے باہر سے حضرت ابو بکر نے۔ ( المنار ۱۱:۸)

۲۔ انصار میں سے سابقین اولین میں سب سے پہلے وہ سات افراد ہیں جنہوں نے بعثت کے گیارہویں سال منیٰ کی بیعت عقبہ میں شرکت کی۔ ان کے بعد وہ ستر افراد ہیں جنہوں نے دوسری مرتبہ بعثت کے بارہویں سال میں بیعت میں شرکت کی۔ ان کے بعد ان لوگوں کا رتبہ آتا ہے جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرستادہ مصعب بن عمیر کے ہاتھوں اسلام قبول کیا۔ ان کے بعد ان لوگوں کارتبہ آتا ہے جنہوں نے رسول اسلامؐ کی آمد کے موقع پر اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد جب اسلام نے قوت پکڑلی تو ہجرت کے دوسرے سال سے منافقت شروع ہو گئی تھی۔

۳۔ تابعین ان کو کہتے ہیں جو مہاجرین و انصار کی نیک کرداری میں ان کی اتباع کریں۔ اس میں دو جملے قابل توجہ ہیں :

وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ: وہ لوگ جو ان کے پیرو ہوئے۔ اس سے مہاجرین و انصار کے مقام و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ آنے والی نسلوں کے لیے نمونہ اور مقتدیٰ ثابت ہوئے۔ ان کا ایمان و ایثار اور جہاد فی سبیل اللہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

ii۔ بِاِحۡسَانٍ: یہ پیروی مطلق نہیں بلکہ نیک کرداری کی قید ہے۔

دریا بادی صاحب اس جگہ لکھتے ہیں:

بِاِحۡسَانٍ کی قید بہت قابل غور ہے۔ مہاجر ہوں یا انصار، صحابہ کرام کی کوئی بھی قسم ہو، بہرحال یہ حضرات معصوم نہ تھے۔ عصمت صرف خاصۂ نبوت ہے۔ اس لیے حکم ان حضرات کی اتباع مطلق کا نہیں بلکہ قید یہ لگی ہوئی ہے کہ نیک کرداری میں ان کی اتباع کی جائے۔

اس کے بعد قرطبی کی یہ عبارت نقل کرتے ہیں :

باحسان: ای ما یتبعون فیہ من افعالہم و اقوالہم لا فی ما صدر عنہم من ألہفوات و الزلات اذ لم یکونوا معصومین ۔

باحسان کا مطلب یہ ہے کہ ان کے افعال و اقوال میں جو نیک ہیں ان کی اتباع کی جائے۔ نہ یہ کہ ان کی غلطیوں و لغزشوں کی پیروی کی جائے چونکہ یہ حضرات معصوم تو تھے نہیں۔

باحسان کی قید ایسے ہی ہے جیسے درج ذیل آیت میں بایمان کی قید ہے:

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ اتَّبَعَتۡہُمۡ ذُرِّیَّتُہُمۡ بِاِیۡمَانٍ اَلۡحَقۡنَا بِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ ۔۔ (۵۲ طور : ۲۱)

اور جو لوگ ایمان لے آئے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ان کی اولاد کو (جنت میں ) ہم ان سے ملا دیں گے۔۔۔۔

یہاں کسی تعصب اور تنگ نظری کے بغیر انصاف کی بات یہ نکلتی ہے کہ جب مہاجرین و انصار کی نیک کرداری پر عمل کرنا ہے تو یہ تشخیص لازم ہے کہ ان کا کون سا کردار نیک تھا اور کون سا نیک نہ تھا۔ بقول قرطبی کون سا کردار احسان تھا اور کون سا کردار ہفوات و ذلات تھا۔ اس تشخیص کو طعن کہنا ناانصافی ہے۔ ایک شخص پوری دیانت و امانت کے ساتھ مستند مصادر سے ان کے ہفوات و زلات کو سامنے لاتا ہے تو اس میں طعن نہیں بلکہ یہ اتباع احسان کے لیے ضروری ہے۔

صحیح بخاری میں آیا ہے کہ حضرت عمرؓ نے رسول اللہؐ سے عرض کیا:

یا رسول اللہ یدخل علیک البر و الفاجر فلو امرت امھات المؤمینن بالحجاب فانزل اللہ اٰیۃ الحجاب ۔

یا رسول اللہ آپ کے پاس نیک لوگ بھی آتے ہیں اور فاجر لوگ بھی۔ کیا اچھا ہو اگر آپ امہات مؤمنین کو پردے کا حکم دیں۔ چنانچہ آیہ حجاب نازل ہوئی۔

اس سے معلوم ہوا رسول اللہؐ کی خدمت میں پہنچنے والوں میں فاجر لوگ بھی ہوتے تھے۔

خلاصہ یہ کہ اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ افراد امت میں سب سے زیادہ فضیلت ان مہاجرین کو حاصل ہے جنہوں نے ایمان و ہجرت میں سبقت حاصل کی۔ اس کے بعد انصار کو فضیلت حاصل ہے جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت میں سبقت حاصل کی۔ ان کے بعد ان لوگوں کا درجہ آتا ہے جنہوں نے نیک کرداری میں ان کی اتباع کی۔

رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ: ان تینوں گروہوں پر حسب درجات اللہ راضی ہے۔ اللہ کی خوشنودی ایک ناقابل وصف و بیان نعمت ہے۔ وَ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ۔۔۔۔ (۹توبۃ :۷۲) یہ جملہ بھی ایک دلیل ہے کہ اللہ ان لوگوں پر راضی ہے جن سے اللہ کو ناپسندیدہ حرکات سرزد نہیں ہوئیں۔

اہم نکات

۱۔ مہاجرین میں بھی سب سے افضل وہ ٹھہرا، جو ایمان میں سابق و اول ہے۔

۲۔ تابعین میں بھی افضل وہ ٹھہرا جو اتباع احسان میں سب سے آگے ہو۔


آیت 100