آیت 92
 

وَّ لَا عَلَی الَّذِیۡنَ اِذَا مَاۤ اَتَوۡکَ لِتَحۡمِلَہُمۡ قُلۡتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحۡمِلُکُمۡ عَلَیۡہِ ۪ تَوَلَّوۡا وَّ اَعۡیُنُہُمۡ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوۡا مَا یُنۡفِقُوۡنَ ﴿ؕ۹۲﴾

۹۲۔اور نہ ہی ان لوگوں پر(کوئی الزام ہے) جنہوں نے آپ سے درخواست کی تھی کہ آپ ان کے لیے سواری فراہم کریں آپ نے کہا: میرے پاس کوئی سواری موجود نہیں کہ تمہیں اس پر سوار کروں (یہ سن کر) وہ واپس گئے جب کہ ان کی آنکھیں اس غم میں آنسو بہا رہی تھیں کہ ان کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہ تھا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَّ لَا عَلَی الَّذِیۡنَ: نہ ہی ایسے لوگوں پر کوئی الزام ہے جو سچے دل سے جہاد میں جانا چاہتے ہیں لیکن سواری نہیں ہے۔ اے رسولؐ! وہ آپؐ سے سواری کا مطالبہ کرتے ہیں چونکہ ۶۱۰ کلومیٹر کا فاصلہ بغیر سواری کے طے کرنا ممکن نہیں۔ یہ لوگ سابقہ آیت میں مذکور لَا یَجِدُوۡنَ مَا یُنۡفِقُوۡنَ میں شامل ہیں مگر ان کے خلوص کی وجہ سے از باب ذکر الخاص بعد العام ان کا خصوصی طور پر ذکر ہو رہا ہے جو ان کے لیے فضیلت ہے۔

۲۔ قُلۡتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحۡمِلُکُمۡ: اے رسولؐ! آپؐ نے ان سے فرمایا: میرے پاس کوئی سواری نہیں ہے۔ قابل توجہ ہے کہ اسلامی ریاست ایک سپر پاور کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔ اس جنگ کے سپاہی اسلحہ نہیں مانگتے صرف وسائل سفر مانگتے ہیں۔ اسلامی ریاست کے پاس سپاہیوں کے لیے نہ سواری ہے، نہ زاد راہ ہے۔

۳۔ تَوَلَّوۡا وَّ اَعۡیُنُہُمۡ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ: وہ واپس جاتے ہیں اور ان کی آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں کہ جہاد کی فضیلت حاصل کرنے سے عاجز رہ گئے۔

یہ ان لوگوں کا ذکر ہے جو جذبۂ جہاد سے سر شار ہیں۔ اللہ اور رسولؐ کے خیر خواہ ہیں لیکن ان کے اس نیک ارادے کے سامنے وسائل کا فقدان مانع ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ جنگی وسائل نہ حکومت کے پاس ہیں ، نہ عوام کے پاس۔ اس وقت ان کے سچے جذبات ان کے مقدس رخساروں پر آنسوؤں کی شکل میں شہادت دے رہے تھے۔

اہم نکات

۱۔ ان لوگوں کو کوئی غم نہ ہو گا جو جہاد میں شرکت کرنا ممکن نہ ہونے کے غم میں رو رہے ہیں: اَعۡیُنُہُمۡ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ ۔۔۔۔


آیت 92