آیات 6 - 8
 

اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ ۪ۙ﴿۶﴾

۶۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے قوم عاد کے ساتھ کیا کیا؟

اِرَمَ ذَاتِ الۡعِمَادِ ۪ۙ﴿۷﴾

۷۔ ستونوں والے ارم کے ساتھ،

الَّتِیۡ لَمۡ یُخۡلَقۡ مِثۡلُہَا فِی الۡبِلَادِ ۪ۙ﴿۸﴾

۸۔ جس کی نظیر کسی ملک میں نہیں بنائی گئی،

تفسیر آیات

۱۔ اَلَمۡ تَرَ: کیا آپ نے نہیں دیکھا! خطاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے اور ’’ دیکھا ‘‘ سے مراد علم شہودی ہے۔ یعنی حضورؐ کے لیے اس قدر واضح ہے گویا کہ بہ چشم خود دیکھا ہے۔

۲۔ رَبُّکَ: کی تعبیر سے یہ بات ذہن نشین کرنا مقصود ہے کہ جزا و سزا دینے والا اور اس پر قدرت رکھنے والا ہی ربْ ہوتا ہے۔

۳۔ بِعَادٍ: عاد سامی اقوام میں سے ایک قوم کے جد اعلیٰ کا نام ہے۔ عاد بن عوض بن ارم بن سام بن نوح۔

جس قوم عاد کو تباہ کر دیا گیا اسے کو عاد اولیٰ کہتے ہیں جیسا کہ سورہ نجم ۵۰ میں فرمایا:

وَ اَنَّہٗۤ اَہۡلَکَ عَادَۨ ا الۡاُوۡلٰی ﴿﴾

اور یہ کہ اسی نے عاد اولیٰ کو ہلاک کیا۔

عاد اولیٰ کی ہلاکت کے بعد باقی ماندہ قوم کو عاد اخری کہتے ہیں۔

۴۔ اِرَمَ: عاد کا بدل یا عطف بیان ہے۔ یعنی عاد ارم۔ اِرَمَ کا لفظ بعض کے نزدیک قوم عاد کے جد اعلیٰ کا نام ہے۔ ارم بن سام بن نوح لیکن اکثر مفسرین اس لفظ کو ایک مقام کا نام قرار دیتے ہیں۔ یہی درست ہے چونکہ کلمۂ ارم کو مؤنث قرار دیا ہے۔ ذَاتِ الۡعِمَادِ فرمایا ذوالعماد نہیں فرمایا۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ اِرَمَ کو ستونوں والا فرمایا ہے۔ ایک’’مقام‘‘ ہے جو ستونوں والا ہے ورنہ شخص ستون والا نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اِرَمَ ایک شخص کا نام ہو بعد میں ایک مقام اس کے نام سے موسوم ہو گیا ہو۔ یعنی ممکن ہے قوم عاد نے ایک مقام کو اپنے جد اعلیٰ کے نام سے موسوم کیا ہو۔

۵۔ ذَاتِ الۡعِمَادِ: ستونوں والے کی تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں شاندار عمارتیں بنائی گئی تھیں۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ذات العماد کون سی جگہ ہے۔ مختلف اقوال ہیں۔ کسی قول کی کوئی سند نہیں ہے۔

۶۔ الَّتِیۡ لَمۡ یُخۡلَقۡ مِثۡلُہَا: اس زمانہ کا ترقی یافتہ ترین شہر تھا جس کی اس زمانے میں مثال نہیں ملتی تھی۔ بہشت شداد داستان سازوں کی تخلیق ہے۔ یہ کعب الاحبار یہودی اور وھب بن منبہ جیسے لوگوں کی ساختہ و بافتہ ہے۔


آیات 6 - 8