آیات 1 - 4
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الفجر

اس سورہ مبارکہ کا نام الۡفَجۡرِ اس لفظ کے ابتدائی آیت میں مذکور ہونے کی مناسبت سے مقرر ہوا۔

یہ سورۃ بھی مکی ہے۔ آیات کی تعداد تیس ہے۔

سورۃ کی ابتداء میں چند مظاہر قدرت کی قسم کھا کر فرمایا: غافل انسان گزشتہ اقوام کے عبرت انگیز انجام سے سبق کیوں نہیں سیکھتا۔ خاص کر ارم کا ذکر ہے جس کی مثال اس زمانے کی عمار تی دنیا میں نہیں ملتی تھی۔ وہ آج نابود ہے ۔

اس کے بعد انسانی قدروں کی پاسداری نہ کرنے والوں کا ذکر ہے جو مال سے جی بھر کے محبت کرتے ہیں، یتیم کو احساس محرومیت سے نکالنے کی فکر نہیں کرتے اور انہیں غریبوں کی بھوک پر ترس نہیں آتا۔

فضیلت: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

اقْرَئُ وا سُورَۃَ الْفَجْرِ فِی فَرَائِضِکُمْ وَ نَوَافِلِکُمْ فَاِنَّھَا سُورَۃٌ لِلْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍٍّ ع مَنْ قَرأَھَا کَانَ مَعَ الْحُسَیْنِ بْنَ عَلِیٍّ یََوْمَ الْقِیَامَۃِ فِی دَرَجَتِہِ مِنَ الْجَنَّۃِ۔۔۔۔ (وسائل الشیعۃ ۶: ۱۴۴۔ ثواب الاعمال: ۱۲۳)

سورۃالفجر اپنی فریضہ اور نفل نمازوں میں پڑھا کرو چونکہ یہ حسین بن علی علیہما السلام کی سورۃ ہے۔ جو اسے پڑھے گا وہ قیامت کے دن حسین علیہ السلام کے ساتھ ایک درجہ میں ہو گا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَ الۡفَجۡرِ ۙ﴿۱﴾

۱۔ قسم ہے فجر کی،

وَ لَیَالٍ عَشۡرٍ ۙ﴿۲﴾

۲۔ اور دس راتوں کی،

وَّ الشَّفۡعِ وَ الۡوَتۡرِ ۙ﴿۳﴾

۳۔ اور جفت اور طاق کی،

وَ الَّیۡلِ اِذَا یَسۡرِ ۚ﴿۴﴾

۴۔ اور رات کی جب جانے لگے۔

تشریح کلمات

یَسۡرِ:

( ی س ر ) گزر جانے کے معنوں میں ہے۔

حِجۡرٍ:

( ح ج ر ) انسانی عقل کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ الۡفَجۡرِ: فجر شگاف کو کہتے ہیں۔ صبح کی روشنی رات کی تاریکی کو چیرتے ہوئی نکلتی ہے۔ اس لیے اسیفجر کہتے ہیں۔ فجر ایک جدید دن کا آغاز ہے۔ زندگی فعال ہو جاتی ہے اور کارزار حیات میں رات کی خاموشی کے بعد رونق لوٹ آتی ہے۔

بعض کے نزدیک عید الضحی اور بعض کے نزدیک محرم کی پہلی تاریخ قابل تطبیق ہے چونکہ پہلی محرم اسلامی سال کا پہلا دن ہے۔

۲۔ وَ لَیَالٍ عَشۡرٍ: ابن عباس کی ایک روایت کے مطابق دس راتوں سے مراد ذوالحجۃ کی پہلی دس راتیں ہیں۔ بعض اس کو محرم کی پہلی دس راتوں پر بھی تطبیق کرتے ہیں۔

۳۔ وَّ الشَّفۡعِ وَ الۡوَتۡرِ: جفت اور طاق سے مراد کیا ہے؟ اقوال و روایات مختلف ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وَّ الشَّفۡعِ وَ الۡوَتۡرِ سے مراد مطلق جفت اور طاق ہے۔ ان مختلف روایات میں اس کے مصادیق کا ذکر ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں شفع قربانی کا دن اور وتر عرفہ کا دن ہے۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ دونوں سے مراد نماز ہے۔ کچھ نمازیں الشَّفۡعِ جفت ہیں اور کچھ نمازیں الۡوَتۡرِ طاق ہیں۔ تیسری روایت میں آیا ہے الشَّفۡعِ ترویہ کا دن ہے اور الْوَتْرِ عرفہ کا دن ہے۔

ایک حدیث کے مطابق الشَّفۡعِ حسن و حسین اور الۡوَتۡرِ امیرالمومنین علی علیہم السلام ہیں۔ (تفسیر القمی ۲: ۴۱۹ ذیل آیہ)

۴۔ وَ الَّیۡلِ اِذَا یَسۡرِ: رات میں ٹھہراؤ نہیں ہے۔ ہر لمحہ رات گزر رہی ہوتی ہے تاکہ دن اس کی جگہ لے لے۔ رات کو تدبیر حیات میں انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ اگر رات نہ ہوتی، ہمیشہ دن ہوتا تو حیات ممکن نہ تھی۔ اسی طرح اگر ہمیشہ رات ہوتی، دن نہ ہوتا تو بھی زمین پر حیات ممکن نہ تھی۔ اسی لیے رات کا وجود اور اس کا جانا دونوں آیات الٰہی میں سے اہم آیات ہیں۔

رہا یہ سوال کہ یہاں الَّیۡلِ سے مراد مطلق رات ہے یا کوئی خاص رات؟ اکثر مفسرین کے نزدیک مطلق رات ہے۔


آیات 1 - 4