آیات 1 - 2
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الانفطار

اس سورۃ مبارکہ کا نام پہلی آیت میں مذکور لفظ انۡفَطَرَتۡ سے ماخوذ ہے۔

کوئی ایسے شواہد موجود نہیں ہیں جن سے معلوم ہو سکے کہ یہ سورۃ مکی زندگی کے کس دور میں نازل ہوئی۔ تاہم مضمون کے اعتبار سے اس سورۃ کا مضمون سابقہ سورۃ تکویر سے مشابہ ہے۔ لہٰذا ہو سکتا دونوں سورتیں قریب قریب زمانے میں نازل ہوئی ہوں۔

سورۃ مبارکہ کا مضمون قیام قیامت کے موضوع سے شروع ہوتا ہے۔ اس میں قیامت کے دن اس نظام حیات کی دگرگونی بیان کرنے کے بعد انسانی ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے ارشاد فرمایا ہے: یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الۡکَرِیۡمِ۔ اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے کریم رب کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا کہ تجھے اپنی اس سنگین ترین عاقبت کی کوئی فکر نہیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِذَا السَّمَآءُ انۡفَطَرَتۡ ۙ﴿۱﴾

۱۔ جب آسمان شگافتہ ہو جائے گا۔

وَ اِذَا الۡکَوَاکِبُ انۡتَثَرَتۡ ۙ﴿۲﴾

۲۔ اور جب ستارے بکھر جائیں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ ان آیات میں بھی ایک کائناتی انقلاب کا ذکر ہے۔ آسمان کے شگافتہ ہونے کا مطلب اس قوت کا خاتمہ ہو سکتا ہے جس کے ذریعہ اجرام کائنات باہم مربوط ہیں۔

۲۔ اس قوت کے خاتمے سے ستارے بکھر جائیں گے اور کائنات درہم برہم ہو جائے گی۔ یہ قوت جاذبہ ہے جس کا مرکز ایک نظریہ کے مطابق بلیک ہول (Black hole) ہے اور شگافتگی بلیک ہول میں آئے گی جس کے نتیجے میں کہکشائیں بکھر جائیں گی۔ یہ ایک مفروضہ ہے جس کی بنیاد پر ہم قرآن کی تفسیر نہیں کر سکتے۔ آیت سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آسمان میں ایک انفجار آئے گا جس سے ستارے بکھر جائیں گے۔


آیات 1 - 2