آیت 10
 

وَ مَا جَعَلَہُ اللّٰہُ اِلَّا بُشۡرٰی وَ لِتَطۡمَئِنَّ بِہٖ قُلُوۡبُکُمۡ ۚ وَ مَا النَّصۡرُ اِلَّا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿٪۱۰﴾

۱۰۔ اور اس مدد کو اللہ نے تمہارے لیے صرف بشارت اور اطمینان قلب کا باعث بنایا اور (یہ باور کرا یا کہ) نصرت تو بس اللہ کی جانب سے ہے، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَا جَعَلَہُ اللّٰہُ: اس آیت سے اس نظریے کی تائید ہوتی ہے کہ فرشتوں کی شرکت کی نوعیت روحانی تقویت دینا اور مسلمانوں کے دلوں سے خوف و ہراس نکال کر ان کو حوصلہ دلانا تھی۔ ورنہ کفر کے لشکر کو تباہ کرنے کے لیے صرف ایک فرشتہ کافی تھا۔ جیسا کہ قوم لوط کی ہلاکت صرف جبرائیل سے ہوگئی تھی۔

۲۔ وَ مَا النَّصۡرُ اِلَّا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ: فتح نصرت کا اصل سرچشمہ اللہ کی ذات ہے۔ خواہ فرشتوں کے ذریعے یا دیگر ذرائع سے۔

اہم نکات

۱۔ ظاہری اسباب و وسائل ذریعہ ہیں ، واقعی نصرت اللہ کی طرف سے ملتی ہے: وَ مَا النَّصۡرُ اِلَّا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ۔

۲۔ فرشتوں کا نزول اطمینان کا سبب بنا، جس سے فتح نصیب ہوئی: وَ مَا جَعَلَہُ اللّٰہُ اِلَّا بُشۡرٰی وَ لِتَطۡمَئِنَّ بِہٖ قُلُوۡبُکُمۡ ۔۔۔۔

۳۔ کسی ہدف میں کامیابی کے لیے مادی وسائل سے زیادہ معنوی اور نفسیاتی قوت و طاقت زیادہ اہم ہے۔


آیت 10