آیات 5 - 6
 

کَمَاۤ اَخۡرَجَکَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَیۡتِکَ بِالۡحَقِّ ۪ وَ اِنَّ فَرِیۡقًا مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ لَکٰرِہُوۡنَ ۙ﴿۵﴾

۵۔ (انفال کے بارے میں صورت حال ویسے ہی ہے) جیسے آپ کے رب نے آپ کو حق کے ساتھ گھر سے (جنگ کے لیے)نکالا جبکہ (یہ امر) مومنوں کی ایک جماعت پر سخت گراں گزرا تھا۔

یُجَادِلُوۡنَکَ فِی الۡحَقِّ بَعۡدَ مَا تَبَیَّنَ کَاَنَّمَا یُسَاقُوۡنَ اِلَی الۡمَوۡتِ وَ ہُمۡ یَنۡظُرُوۡنَ ؕ﴿۶﴾

۶۔ حق ظاہر ہو چکنے کے بعد یہ لوگ آپ سے حق کے بارے میں الجھ رہے تھے گویا وہ موت کی طرف ہانکے جا رہے ہوں (جس کو) وہ دیکھ رہے ہوں۔

تشریح کلمات

بَیۡتِکَ:

سے مراد مدینہ ہے۔

بِالۡحَقِّ:

سے مراد بالِوَحْی ۔ بعض حق سے مراد جہاد لیتے ہیں۔

تفسیر آیات

انفال کو اللہ اور رسولؐ کی ملکیت قرار دینا بعض لوگوں کو سخت ناگوار تھا۔ اسی طرح جنگ بدر کے موقع پر لشکر قریش کے مقابلے پر جانا سخت ناگوار گزرا اور اسے خودکشی تصور کرتے تھے لیکن دونوں جگہ حق کا تقاضا یہ تھا کہ خطرے کا مقابلہ کیا جائے اور مال غنیمت اللہ اور رسولؐ کے لیے چھوڑ دیا جائے۔

یُجَادِلُوۡنَکَ فِی الۡحَقِّ بَعۡدَ مَا تَبَیَّنَ: وہ اس حق کے بارے میں آپؐ سے الجھ رہے تھے جب کہ حق ان پر ظاہر ہو چکا تھا کہ یہ حکم خدا ہے اور آپؐ سچے ہیں۔

اس آیت میں نہایت شدید ترین لہجے میں ان لوگوں کی سرزنش فرمائی جو جنگ میں شرکت کے حق میں نہ تھے اور اللہ کی طرف سے وعدہ فتح کے باوجود رسول اللہؐ سے مجادلہ کرتے تھے۔ اگر یہ مجادلہ وعدہ فتح سے پہلے ہوتا تو کسی حد تک قابل فہم تھا، چونکہ سرزنش و عتاب کا جو لہجہ یہاں اختیار کیا گیا ہے، وہ ایسا ہے جیسا مشرکین کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ لہٰذا بعض علماء نے تو یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ آیت مشرکین کے بارے میں ہے۔

صاحب المنار لکھتے ہیں :

یہ مشرکین ہی کے لیے سزاوار ہے۔

لیکن بعد میں دلیل دیتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کے بارے میں ہی ہے۔ چونکہ آیت میں مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ کی صراحت موجود ہے۔

واقعہ یہ تھا کہ قریش کا ایک بڑا تجارتی قافلہ شام سے مکہ واپس جاتے ہوئے مدینہ کے قریب سے گزر رہا تھا۔ اس قافلے کے سردار ابوسفیان کو خطرہ تھا کہ مسلمانوں کا کوئی دستہ ان پر حملہ نہ کر دے۔ چنانچہ اس نے مکہ کی طرف ایک آدمی کو روانہ کر دیا کہ وہاں سے مدد لے آئے۔ چنانچہ قریش مکہ نہ صرف اپنے قافلے کو بچانے کے لیے بلکہ مسلمانوں کا خاتمہ کرنے کی نیت سے نکلے۔ مدینے سے نکلتے وقت مسلمانوں کو یہ علم نہ تھا کہ ان کا سامنا تجارتی قافلے سے ہو گا، جس کے صرف چالیس محافظ تھے یا لشکر قریش سے ہو گا۔ اس وقت اللہ کی طرف سے یہ نوید نازل ہوئی:

وَ اِذۡ یَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحۡدَی الطَّآئِفَتَیۡنِ اَنَّہَا لَکُمۡ ۔۔۔۔ (۸ انفال: ۷)

اور (وہ وقت یاد کرو) جب اللہ تم لوگوں سے وعدہ فرما رہا تھا کہ دو گروہوں میں سے ایک تمہارے ہاتھ آ جائے گا۔۔۔

اس الٰہی نوید کے باوجود جب رسول اللہؐ نے قافلے کی بجائے لشکر قریش سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا تو (قرآنی تعبیر کے مطابق) ان کا حال یہ تھا کہ گویا وہ سامنے نظر آنے والی موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں۔ اس موقع پر بعض اہل قلم نے خوب لکھا ہے:

اس لیے چند سرفروش فدائیوں کے سوا اکثر لوگ جو اس خطرناک مہم میں شریک تھے، دلوں میں سہم رہے تھے اور انہیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جانتے بوجھتے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ مصلحت پرست لوگ جو اگرچہ دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے تھے، مگر ایسے ایمان کے قائل نہ تھے جس میں جان و مال کا زیاں ہو، اس مہم کو دیوانگی سے تعبیر کر رہے تھے اور ان کا یہ خیال تھا کہ دینی جذبے نے ان لوگوں کو پاگل بنا دیا ہے۔ (تفہیم القران ۲: ۱۲۶)

اہم نکات

۱۔ پیغمبر اسلامؐ کی جنگی حکمت عملی سے ایک ہزار کے مقابلے میں صرف ۳۱۳ پر مشتمل کمزور لشکر نے فتح حاصل کی اور ان میں سے بہت سے لوگوں کا یہ حال تھا:

الف: جنگ سے کراہت کر رہے تھے: وَ اِنَّ فَرِیۡقًا مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ لَکٰرِہُوۡنَ ۔۔۔۔

ب: اللہ کی طرف سے نوید فتح کے بعد بھی رسول اللہؐ سے الجھ رہے تھے: یُجَادِلُوۡنَکَ فِی الۡحَقِّ ۔۔۔

ج: ان کو فتح کی کوئی امید نہ تھی بلکہ ان کو موت نظر آرہی تھی: کَاَنَّمَا یُسَاقُوۡنَ اِلَی الۡمَوۡتِ ۔۔۔۔


آیات 5 - 6