آیت 4
 

اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَہُمۡ دَرَجٰتٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ وَ مَغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ ۚ﴿۴﴾

۴۔ یہی لوگ حقیقی مومن ہیں، ان کے لیے ان کے رب کے پاس درجات ہیں اور مغفرت اور باعزت روزی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا: انسان مذکورہ اوصاف کا مالک ہو تو سچے مؤمن کی منزل پر فائز ہو کر قرب الٰہی کے اعلیٰ درجات پر فائز ہو جاتا ہے۔ حقیقی ایمان کی منزل پر فائز ہونے کے لیے مذکورہ اوصاف کی حقیقت سے متصف ہونا ضروری ہے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ بھی نہیں ہے کہ ان اوصاف سے جو متصف نہ ہو وہ سرے سے مؤمن ہی نہیں ہے۔ چنانچہ ذکر خدا سے دلوں کا کانپنا کامل مؤمن کی علامت ہے۔ نہیں کانپتا ہے تو کمال کی نفی ہوتی ہے، ایمان کی نہیں ہوتی۔ البتہ صرف اللہ کا ذکر کرنے سے کسی کا دل متنفر ہوجاتا ہے تو یہ نفی ایمان کی علامت ہے۔ فرمایا:

وَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحۡدَہُ اشۡمَاَزَّتۡ قُلُوۡبُ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ ۔ (۳۹ الزمر: ۴۵)

اور جب صرف اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل متنفر ہو جاتے ہیں۔

۲۔ وَ مَغۡفِرَۃٌ: ایمان کے مذکورہ اوصاف سے متصف ہونے کے بعد انسان گناہوں سے مبرا نہیں ہوتا لیکن اللہ سچے مومن کے گناہوں سے درگزر، اس کی لغزشوں سے چشم پوشی فرماتا ہے اور اس کے نیک اعمال کا اجر و ثواب دیتا ہے۔

۳۔ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ: کریم کے معنی عظیم سے بھی کیے گئے ہیں۔ کریم الاخلاق اسے کہتے ہیں جس کے اخلاق قابل ستائش ہو۔

اہم نکات

۱۔ درجات اور مغفرت سچے مؤمن کے لیے ہے۔


آیت 4