آیات 2 - 3
 

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ اِذَا تُلِیَتۡ عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُہٗ زَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ ۚ﴿ۖ۲﴾

۲۔ مومن تو صرف وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل کانپ جاتے ہیں اور جب انہیں اس کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔

الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ؕ﴿۳﴾

۳۔جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

جہاد اصغر ، یعنی جنگ وجدال سے فارغ ہونے کے بعد۔ جہاد اکبر یعنی مال و متاع کی نوبت آئی تو اس جہاد کے لیے پختہ ایمان کی زیادہ ضرورت تھی۔ چونکہ غنیمت کی ملکیت کو اس پر قابض لوگوں سے چھین کر اللہ اور رسولؐ کی ملکیت قرار دیا جا رہا تھا، اس وقت ضعیف الایمان لوگوں میں تزلزل کا احتمال تھا۔ اس لیے انفال کا حکم مختصر لفظوں میں بیان فرمانے کے بعد فرمایا:

اگر تم مومن ہو تو:

iـ اللہ سے ڈرو: فَاتَّقُوا اللّٰہَ

ii۔ آپس میں صلح و آشتی قائم رکھو: وَ اَصۡلِحُوۡا ذَاتَ بَیۡنِکُمۡ

iii۔ اللہ اوراس کے رسولؐ کی اطاعت کرو: وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗۤ

سچے مومن وہ ہیں :

iv۔ جن کے دل ذکر خدا کے موقع پر کانپ جاتے ہیں : اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ

v۔ کلام اللہ کی تلاوت سے ان کے ایما ن میں اضافہ ہوجاتا ہے: زَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا

vi۔ اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ وَّ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ

vii۔ نماز قائم کرتے ہیں۔ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ

viii۔ راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں۔ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ

آئیے ان اوصاف کی وضاحت کرتے ہیں :

i۔ خدا ترسی: اس کا مطلب ہے کہ اگرچہ ذات خدا ارحم الراحمین ہے۔ اس رحیم ذات سے خوف کی کوئی بات نہیں بلکہ اس خوف کا تعلق خود بندے کی ذات و عمل سے ہے کہ ایک طرف اللہ کی عظمت و جلالت ہے، دوسری طرف اس کا عدل و انصاف ہے، تیسری طرف بندے کی کوتاہیاں اور گناہ ہیں۔

ii۔ ایمان کے درجات ہیں۔ ادنیٰ درجہ ایمان حاصل کرنے سے کفر سے خارج ہوتاہے۔ اس کے بعد مراحل ہیں۔ یہ انسان کے تعقل، غور و فکر، دلیل و برہان اور بحث و تحقیق کے ساتھ مربوط ہیں۔ روایت میں آیا ہے کہ اللہ نے قرآن میں تجلی فرمائی ہے۔ لہٰذا کلام خدا سے ان کے ایمان میں پختگی آ جاتی ہے۔ ایمان زیادہ ہونے سے مال و متاع کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔

iii۔ ایمان کے درجات اور کمال سے توکل اور بھروسہ مربوط ہے۔

اللہ تعالیٰ پر ایمان جتنا مضبوط ہو گا، اس کی ذات و صفات پر علم و یقین بڑھے گا، اتنا ہی اس ذات پر بھروسا اور توکل زیادہ ہو گا۔ مؤمن مال و متاع سے زیادہ اللہ پر بھروسا کرتا ہے۔

iv۔ یہ بات بھی اپنی جگہ واضح ہے کہ اللہ کے وجود کا یقین آنے سے اس کی محبت دل میں زیادہ ہوتی، عبادت میں فروتنی آتی اور گناہ سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ایمان کی آخری منزل پر فائز ہونے کے بعد عصمت کی منزل آ جاتی ہے۔

v۔ مؤمن مال و زر سے اتنا تعلق رکھتا ہے کہ اس سے اللہ کی رضایت حاصل ہوجائے: وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۔

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مؤمن کے یہ تمام اوصاف اس اعلی و ارفع مقصد کی طرف توجہ دلانے کے لیے بتائے جا رہے ہیں جس کے لیے یہ جنگ لڑی گئی تاکہ اسلامی افواج کے ذہنوں میں یہ الٰہی قدریں راسخ ہو جائیں اور ان کے مقابلے میں مال غنیمت حقیر نظر آنے لگے۔

اہم نکات

۱۔ ذکر وہ ہے جس سے دلوں میں لرزہ آئے اور مؤمن وہ ہے جو اس قسم کا ذکرکرے: اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ ۔۔۔۔

۲۔ مؤمن کا ایمان ارتقا پذیر ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ غور و فکر میں ہوتا ہے: زَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا ۔۔۔۔


آیات 2 - 3