آیات 10 - 12
 

یَقُوۡلُوۡنَ ءَاِنَّا لَمَرۡدُوۡدُوۡنَ فِی الۡحَافِرَۃِ ﴿ؕ۱۰﴾

۱۰۔ کہتے ہوں گے: کیا ہم ابتدا کی طرف پھر واپس لائے جائیں گے؟

ءَ اِذَا کُنَّا عِظَامًا نَّخِرَۃً ﴿ؕ۱۱﴾

۱۱۔ کیا جب ہم کھوکھلی ہڈیاں ہو چکے ہوں گے (تب بھی)۔

قَالُوۡا تِلۡکَ اِذًا کَرَّۃٌ خَاسِرَۃٌ ﴿ۘ۱۲﴾

۱۲۔ کہتے ہیں: پھر تو یہ واپسی گھاٹے کی ہو گی۔

تشریح کلمات

الۡحَافِرَۃِ:

(ح ف ر) سابقہ چلا ہوا راستہ۔ راستے پر زیادہ چلنے کی وجہ سے زمین دھنس جاتی ہے اور کھدی ہوئی لگتی ہے۔

نَّخِرَۃً:

( ن ح ر ) کھوکھلی۔ اندر سے کھوکھلا ہونے کی وجہ سے اس سے ہوا آواز کے ساتھ گزرتی ہے۔ چنانچہ نخیر آواز کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ مشرکین قیامت کو ناممکن اور ناقابل یقین قرار دیتے ہوئے کہتے تھے کہ کیا جس راستے پر چل کر ہم زندگی ختم کریں گے اسی راستے پر دوبارہ ہمیں واپس کیا جائے گا۔ اگر حافرہ قبر کے معنوں میں لیا جائے تو فی بمعنی من لینا ہو گا۔ اس صورت میں مشرکین یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کیا ہم ان قبروں سے پھر دنیا میں واپس کیے جائیں گے جو ایک ناممکن بات ہے۔

۲۔ ءَ اِذَا کُنَّا: وہ بھی جب ہم ہڈیوں میں، پھر مٹی میں بدل چکے ہوں گے:

مَنۡ یُّحۡیِ الۡعِظَامَ وَ ہِیَ رَمِیۡمٌ (۳۶ یٰسٓ: ۷۸)

ان ہڈیوں کو خاک ہونے کے بعد کون زندہ کرے گا؟

۳۔ قَالُوۡا تِلۡکَ: بطور تمسخر کہتے ہیں: اگر ہمیں دوبارہ زندہ ہونا پڑا تو ہم گھاٹے میں ہوں گے۔ ہم نے اس کی کوئی تیاری نہیں کی۔ تمسخر یہ ہے کہ گھاٹا ہو گا تو ہمیں ہو گا۔ آپ کو اس سے کیا غرض۔


آیات 10 - 12