آیات 1 - 5
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ النازعات

اس سورۃ کا نام النازعات پہلی آیت میں مذکور ہونے کی وجہ سے ہے۔ آیات کی تعداد کوفی قرائت کے مطابق ۴۶ اور دوسری قرائتوں کے مطابق ۴۵ ہے۔

مضمون: اس سورۃ میں بھی قیامت اور آخرت کے موضوع پر زیادہ توجہ دلائی گئی ہے اور اس بات پر کائناتی نظام خلقت سے استدلال کیا گیا ہے۔ سورہ ہائے مکی میں مسئلہ قیامت کو زیادہ موضوع گفتگو قرار دیا ہے چونکہ ایک تو تصور قیامت سے ہی انسان کی زندگی اور کائنات کے وجود کو معقولیت ملتی ہے ورنہ پورا وجود عبث اور لغو ہو جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ مشرکین اس اہم ترین اور تقدیر ساز عقیدے کے منکر تھے۔ ان دو باتوں کی وجہ سے موضوع قیامت کو قرآن نے سب سے زیادہ تاکید اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَ النّٰزِعٰتِ غَرۡقًا ۙ﴿۱﴾

۱۔ قسم ہے ان (فرشتوں ) کی جو گھس کر کھینچ لیتے ہیں۔

وَّ النّٰشِطٰتِ نَشۡطًا ۙ﴿۲﴾

۲۔ اور آسانی سے نکال لیتے ہیں۔

وَّ السّٰبِحٰتِ سَبۡحًا ۙ﴿۳﴾

۳۔ اور تیزی سے لپکتے ہیں۔

فَالسّٰبِقٰتِ سَبۡقًا ۙ﴿۴﴾

۴۔ پھر (حکم کی بجا آوری میں) خود سبقت لے جاتے ہیں۔

فَالۡمُدَبِّرٰتِ اَمۡرًا ۘ﴿۵﴾

۵۔ پھر امر کی تدبیر کرنے والے ہیں۔

تفسیر آیات

زیادہ قریب واقع موقف یہ ہے کہ مذکورہ آیات میں ذکر شدہ پانچ اوصاف ملائکہ کے ہیں چونکہ پانچویں کا تعلق ملائکہ سے زیادہ منا سب بلکہ متعین ہے۔ لہٰذا باقی اوصاف بھی ملائکہ ہی کے ہو سکتے ہیں۔

کہتے ہیں الف و تاء کے ساتھ فرشتوں کے لیے جمع مؤنث نہیں بنائی جاتی کیونکہ یہ مشرکین کا شعار ہے:

اِنَّ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ لَیُسَمُّوۡنَ الۡمَلٰٓئِکَۃَ تَسۡمِیَۃَ الۡاُنۡثٰی﴿﴾ (۵۳ نجم: ۲۷)

جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کے نام لڑکیوں جیسے رکھتے ہیں۔

جواب یہ ہے کہ اصل کلام جماعۃ الملائکۃ ہے لفظ جماعۃ محذوف ہے نیز قرآن میں دوسری جگہوں پر فرشتوں کے لیے الف و لام کی جمع بنائی گئی ہے جیسے:

لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنۡ خَلۡفِہٖ یَحۡفَظُوۡنَہٗ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰہِ۔۔۔۔ (۱۳ رعد: ۱۱)

ہر شخص کے آگے اور پیچھے یکے بعد دیگرے آنے والے پہرے دار (فرشتے) مقرر ہیں جو بحکم خدا اس کی حفاظت کرتے ہیں۔

اور آیۂ وَ الصّٰٓفّٰتِ صَفًّا ﴿﴾ (۳۷ صافات: ۱) میں اکثر نے کہا ہے فرشتے مراد ہیں۔

آیات میں مذکور چار اوصاف ان فرشتوں کے ہیں جن کی مختلف ذمہ داریاں ہیں۔ آیت کے سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے چار اوصاف کے بعد پانچویں وصف یعنی تدبیر امور کی نوبت آتی ہے۔ لہٰذا پہلے چار اوصاف تدبیر امور کائنات کے تمہیدی امور معلوم ہوتے ہیں جیسا کہ صاحب المیزان نے فرمایا ہے۔

۱۔ وَ النّٰزِعٰتِ: نزع کھینچنے کو کہتے ہیں اور یہاں ان فرشتوں کی قسم کھائی جو ارواح جسموں سے نکال لیتے ہیں۔ وَ النّٰزِعٰتِ کے ساتھ نزعاً کی تعبیر سے اس کھینچنے کی کیفیت معلوم ہوتی ہے یعنی شدت سے۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ یہ آیہ ان فرشتوں کے بارے میں ہے جو کفار کی ارواح نکال لیتے ہیں۔( مجمع البیان)

۲۔ وَّ النّٰشِطٰتِ: نشط خارج ہونے کو کہتے ہیں۔ چنانچہ ثور ناشط اس بیل کو کہتے ہیں جو ایک جگہ سے دوسری جگہ نکل جاتا ہے۔ النشط کھولنے کے معنوں میں بھی آتا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام سے مروی مجمع البیان کی ایک روایت کے مطابق اس آیت کی تطبیق کفار کی ارواح نکالنے والے فرشتوں پر کرتے ہیں۔

۳۔ وَّ السّٰبِحٰتِ: حضرت علی علیہ السلام سے روایت کے مطابق اس آیت کا تعلق ان فرشتوں سے ہے جو ارواح مؤمنین کو آسانی سے نکالتے ہیں۔ (مجمع البیان) لفظ السبح پانی میں تیرنے کے معنوں میں اکثر استعمال ہوتا ہے۔

۴۔ فَالسّٰبِقٰتِ سَبۡقًا: ایک روایت کے مطابق حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو ارواح مؤمنین کو جنت کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ ایک تطبیق ہے۔ لفظی اطلاق کے مطابق اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو اوامر الٰہی کی انجام دہی میں سبقت لے جاتے ہیں۔

۵۔ فَالۡمُدَبِّرٰتِ اَمۡرًا: پس یہ فرشتے امر الٰہی کی تدبیر کرنے والے ہیں ۔

تدبیر عالم میں اللہ کے کارندے

اسباب اور فرشتے

تدبیر امور کے سلسلے میں فرشتے اللہ کی طرف سے وحی نازل کرتے ہیں، امتوں پر عذاب نازل کرتے ہیں، بندوں کی حفاظت کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ اور نزع روح سے لے کر عالم آخرت میں داخل جنت ہونے تک کے تمام امور انجام دیتے ہیں۔ قدرتی اسباب جیسے پانی دھوپ وغیرہ کی طرح اسباب ہیں۔ جس طرح پانی اور دھوپ کے فرائض مقرر، متعین اور غیر قابل تغییر ہیں بالکل اسی طرح فرشتوں کے فرائض مقرر، متعین اور قابل تبدیل و تغیر نہیں ہیں۔ یعنی فرشتوں کے ذمے جو کام لگایا ہے وہ صرف وہی انجام دے سکتے ہیں دوسرا کام انجام نہیں دے سکتے۔ بالکل پانی کی طرح کہ پانی کے ذمے جو کام لگایا ہے وہ صرف وہی کام کر سکتا ہے، دوسرا نہیں۔ اس طرح اسباب ترتیبی ہیں۔ پانی، فرشتے، اللہ تعالیٰ کا ارادہ۔ ان اسباب میں سے پانی کو قریبی سبب کہتے ہیں۔ فرشتے بھی سبب ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ارادہ مسبب الاسباب ہے۔ اسی ارادۂ الٰہی سے فرشتے اور پانی اپنے اپنے مقررہ فرائض انجام دیتے ہیں۔

چنانچہ قرآن مجید نے جس طرح ان امور کی نسبت فرشتوں کی طرف دی ہے، قدرتی اسباب کی طرف بھی نسبت دی۔ چنانچہ زمین کی طرف نسبت دی:

وَ اَنۡۢبَتَتۡ مِنۡ کُلِّ زَوۡجٍۭ بَہِیۡجٍ۔ (۲۲ حج: ۵)

اور مختلف اقسام کی پر رونق چیزیں اگاتی ہے۔

قدرتی اسباب اور فرشتے اپنا ارادہ نہیں رکھتے۔ یعنی وہ اپنا مستقل ارادہ نہیں رکھتے بلکہ سو فیصد ارادۂ الٰہی کے تابع ہیں جس طرح کاتب کے ہاتھ میں قلم ہے۔ یہاں چند طولی اسباب ہیں۔ قلم، ہاتھ، انسان۔ ارادہ انسان کا ہے۔ ہاتھ اور قلم انسان کے ارادے کے تابع ہیں۔

لہٰذا یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ قدرتی اسباب اور فرشتے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں استقلال نہیں رکھتے جیسا کہ مشرکین کہتے ہیں، نہ ان کا ارادہ اپنا ہوتا ہے تاکہ ان کے ہاتھ تفویض ہو سکے۔

یہی وجہ ہے کہ بعض مفسرین نے النّٰزِعٰتِ، النّٰشِطٰتِ اور السّٰبِحٰتِ سے مراد بادل لیا ہے۔ یعنی فرشتے یا اسباب، دونوں اللہ کے تابع ارادہ ہیں۔


آیات 1 - 5