آیت 8
 

وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا﴿۸﴾

۸۔ اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔

تفسیر آیات

وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ: وفا بہ نذر کی نوعیت کی طرف اشارہ ہے کہ نذرکو پورا اس حالت میں کر رہے ہیں کہ وہ کھانا کھلاتے ہیں۔ یہ کھانا کھلانا بھی دو باتوں کی وجہ سے منفرد تھا:

الف: عَلٰی حُبِّہٖ: اپنی ذاتی شدید خواہش کے باوجود یہ اطعام عمل میں آیا۔ اس قسم کا ایثارعام حالت میں وقوع پذیر نہیں ہوتا بلکہ ایک طاقتور محرک درکار ہوتا ہے۔ وہ عشق خدا اور اخلاص در عمل کی طاقت ہے جو اہل بیت اطہار % ہی کے وجود میں پائی جا سکتی ہے۔

عَلٰی حُبِّہٖ کی ضمیر طعام کی طرف ہے کہ طعام کی خواہش کے باوجود ایثار کی وجہ سے اسے فضیلت ملی گئی۔ جیسے لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ۔ (۳ آل عمران: ۹۲) کے تحت درجہ اس انفاق کو ملتا ہے جس میں اپنی پسند کی چیز دے دی جائے۔

ب: یہ ایثار مسکین، یتیم اور اسیر کے لیے عمل میں آیا جن کا تعلق معاشرے کے محروم ترین طبقے سے ہے اور ایثار کا محرک عشق الٰہی کے ساتھ سائل کا مسکین، یتیم اور اسیر ہونا ہے۔ یہ ضرورت مند اور محتاج ترین ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے قابل توجہ ہیں جو الٰہی قدروں کے حامل ہیں۔ ورنہ یہ لوگ معاشرے میں نظر اندازہوتے ہیں اور ان کا تعلق ناقابل اعتنا طبقہ سے ہوتا ہے۔


آیت 8