آیت 3
 

اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا﴿۳﴾

۳۔ ہم نے اسے راستے کی ہدایت کر دی خواہ شکر گزار بنے اور خواہ ناشکرا۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ: انسان کی تخلیق کے بعد اسے اپنے حال پر نہیں چھوڑا بلکہ اسے منزل مقصود اور غرض تخلیق کی سمجھ دے دی۔ السَّبِیۡلَ سے مراد یہی غرض تخلیق ہے۔ جیسے فرمایا:

قَالَ رَبُّنَا الَّذِیۡۤ اَعۡطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلۡقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی﴿۵۰﴾ (۲۰ طہ: ۵۰)

ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت بخشی پھر ہدایت دی۔

اور ہدایت سے مراد تشریعی اور تکوینی دونوں ہو سکتی ہیں۔ لہٰذا آیت سے مطلب اخذ ہو سکتا ہے:

الف ہَدَیۡنٰہُ: ہدایت اس کی فطرت میں ودیعت فرمائی:

فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ﴿۸﴾ (۹۱ شمس: ۸)

پھر اس نفس کو اس کی بدکاری اور اس سے بچنے کی سمجھ دی،

اور انبیاء علیہم السلام کی دعوت کے ذریعے بھی ہدایات کا سامان فراہم فرمایا:

وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ﴿۲۴﴾ (۳۵ فاطر: ۲۴)

اور کوئی امت ایسی نہیں گزری جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو۔

ب السَّبِیۡلَ: سے مراد وہ راستہ ہے جس پر چل کر انسان اس منزل تک پہنچ جاتا ہے جس کے لیے انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ جیسے فرمایا:

ثُمَّ السَّبِیۡلَ یَسَّرَہٗ ﴿۲۰﴾ (۸۰ عبس: ۲۰)

پھر اس کے لیے راستہ آسان بنا دیا۔

۲۔ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا: یہ ہدایت، راستہ دکھانے کا کام انجام دیتی ہے۔ منزل تک ہر صورت میں پہنچانا اس ہدایت کی ذمہ داری نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس ہدایت کی ذمہ داری یہ ہے کہ انسان کے منزل پر پہنچنے کے لیے ضروری سامان فراہم کرے۔ آگے اس کا ہاتھ پکڑ کر جبراً منزل تک پہنچانا اس ہدایت کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ اس ہدایت کے آنے کے بعد انسان دوراہے پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ ان دونوں میں سے ایک کا انتخاب اس کے اختیار میں ہے اِمَّا شَاکِرًا یا تو وہ شکرگزار بن جائے۔ شکر گزار بننے کی صورت یہ ہو گی کہ اس ہدایت سے فائدہ اٹھائے اور اس سبیل پر رواں دواں ہو جائے جس سے وہ اس منزل تک پہنچ پائے جو اس کی غرض تخلیق ہے۔ اس طرح اس نعمت ہدایت کا شکر ادا ہو جائے گا۔

وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا یا ناشکرا بن جائے۔ ناشکری کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ اس ہدایت سے فائدہ نہیں اٹھاتا، ہدایت کی اس نعمت کو پس پشت ڈال دیتا ہے اور اس سبیل پر نہیں چلتا جو اسے منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے دکھائی گئی ہے۔

انسان ان دونوں راستوں میں کس راستے کا انتخاب کرتاہے؟ وہ اس کے اختیار میں ہے۔ وہ چاہے تو شاکر بن جائے اور چاہے تو کافر بن جائے۔

اس آیت سے یہ بات پوری وضاحت سے ثابت ہو جاتی ہے کہ انسان اپنے ارادے میں خود مختار ہے۔ کسی عمل کے انجام دینے کے اوزار اور طاقت اللہ کی طرف سے ہے لیکن اللہ کی طرف سے حاصل ہونے والی طاقت عمل سے وہ کسی کام کے انجام دینے پر مجبور نہیں ہوتا ہے اور نہ ترک کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہ دونوں باتیں انسان کے سامنے ہیں۔ ان دونوں میں سے ایک کا انتخاب انسان کے ہاتھ میں ہے ورنہ جبر کی صورت میں آزمائش قابل تصور نہیں ہے۔


آیت 3