آیات 7 - 10
 

فَاِذَا بَرِقَ الۡبَصَرُ ۙ﴿۷﴾

۷۔ پس جب آنکھیں پتھرا جائیں گی،

وَ خَسَفَ الۡقَمَرُ ۙ﴿۸﴾

۸۔اور چاند بے نور ہو جائے گا،

وَ جُمِعَ الشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ ۙ﴿۹﴾

۹۔ اور سورج اور چاند ملا دئیے جائیں گے،

یَقُوۡلُ الۡاِنۡسَانُ یَوۡمَئِذٍ اَیۡنَ الۡمَفَرُّ ﴿ۚ۱۰﴾

۱۰۔ تو انسان اس دن کہے گا: بھاگ کر کہاں جاؤں؟

تفسیر آیات

۱۔ فَاِذَا بَرِقَ الۡبَصَرُ: اس آیت میں قیامت کے عظیم حادثے کاذکر ہے کہ جب قیامت برپا ہونے والی ہو گی تو اس کائنات کو درہم برہم ہوتے دیکھ کر آنکھیں پتھرا جائیں گی۔ جیسے دوسری جگہ فرمایا:

خَاشِعَۃً اَبۡصَارُہُمۡ تَرۡہَقُہُمۡ ذِلَّۃٌ۔۔۔ (۶۸ قلم: ۴۳)

ان کی نگاہیں نیچی ہوں گی ان پر ذلت چھائی ہوئی ہو گی۔

۲۔ وَ خَسَفَ الۡقَمَرُ: اور چاند بے نور ہو جائے گا۔ چاند کا نور سورج سے ہے اور سورج کے موجود ہونے کی صورت میں چاند بے نور نہیں ہو سکتا لہٰذا ہو سکتا ہے کہ سورج بے نور ہونے کی بات ہے جیسے فرمایا:

اِذَا الشَّمۡسُ کُوِّرَتۡ ﴿۱﴾ (۸۱ تکویر ۱)

جب سورج لپیٹ دیا جائے گا۔

عین ممکن ہے سورج لپیٹ لینے کا مطلب یہ ہو کہ اس کی روشنی ختم ہو جائے گی۔

۳۔ وَ جُمِعَ الشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ: اس آیت کی تفسیر میں متعدد اقوال بیان ہوئے ہیں اور جمع کے معانی بیان کیے گئے ہیں جن کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

البتہ ممکن ہے چونکہ قیامت کے دن موجودہ نظام درہم برہم ہو جائے گا تو کرات سماوی کشش سے نکل جائیں اور باہم ٹکرا جائیں یا اس کی کوئی اور صورت ہو جو ہماری فہم سے دور ہے۔

۴۔ یَقُوۡلُ الۡاِنۡسَانُ: اس وقت قیامت کے بارے میں تمسخر کرنے والا یہ انسان پریشانی کے عالم میں پوچھے گا: ہے کوئی جائے فرار؟ یعنی وہ سمجھ جائے گا کہ اب بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔


آیات 7 - 10