آیات 3 - 4
 

اَیَحۡسَبُ الۡاِنۡسَانُ اَلَّنۡ نَّجۡمَعَ عِظَامَہٗ ؕ﴿۳﴾

۳۔ کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہیں کریں گے؟

بَلٰی قٰدِرِیۡنَ عَلٰۤی اَنۡ نُّسَوِّیَ بَنَانَہٗ﴿۴﴾

۴۔ ہاں! (ضرور کریں گے) ہم تو اس کی انگلیوں کی پور بنانے پر بھی قادر ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اَیَحۡسَبُ الۡاِنۡسَانُ: کل کے ملحدوں اور آج کے نیچر پرستوں (مادہ پرستوں) کا یہ گمان ہے جب انسان کی ہڈیاں خاک میں مل جاتی ہیں تو کون انہیں دوبارہ زندہ کر سکتا ہے:

مَنۡ یُّحۡیِ الۡعِظَامَ وَ ہِیَ رَمِیۡمٌ﴿۷۸﴾ (۳۶ یٰسٓ: ۷۸)

ان ہڈیوں کو خاک ہونے کے بعد کون زندہ کرے گا؟

پھر یہ سوال بھی پیدا کرتے ہیں کہ جب ہڈیاں خاک بن کر دوسری ہڈیوں سے مل جائیں یا کسی جانور کی غذا بن کر اس کی ہڈیوں کا حصہ بن جائیں تو اللہ انہیں کیسے جدا کرے گا؟

بلکہ یہ سوال مزید آگے بڑھتا ہے کہ انسان کا جسم ہڈیوں سمیت ہمیشہ تحلیل ہوتا رہتا ہے اور انسان کے تحلیل شدہ عناصر کاربن کی شکل میں آ کر درختوں اور فصلوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ درختوں کے میووں اور فصلوں کو دیگر انسان اور جانور اپنی غذا کے طور پر کھا لیتے ہیں جس سے ایک انسان کے تحلیل شدہ عناصر دوسرے مسلم اور غیر مسلم انسانوں کے جسم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس طرح ہم دنیا میں ایک دوسرے کو کھا رہے ہوتے ہیں تو اللہ انہیں کیسے جدا کرے گا؟

۲۔ بَلٰی قٰدِرِیۡنَ: جواب میں فرمایا: ہم انسان کی انگلیوں کی پوروں کو بنانے پر قادر ہیں۔ اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ پوروں کے بنانے اور منتشر ہڈیوں کے جمع کرنے پر قادر ہونے میں کوئی قدر مشترک موجود ہے۔ یعنی پوروں کے بنانے پر قادر ہونے میں ایک دلیل ہے کہ اللہ منتشر ہڈیوں کو یکجا کر سکتا ہے۔ وہ دلیل کیا ہے؟ جواب دیا گیا ہے کہ انسان کی انگلیوں کی ساخت اللہ کی حکیمانہ تخلیق کی ایک اہم نشانی ہے۔ انگلیوں کی ساخت، اس میں چیزوں کو اپنے گرفت لینے کے لیے بند کرنے اور کھولنے کی صلاحیت، پھر ان انگلیوں کے ساتھ انگوٹھے کا کردار وغیرہ، دلیل ہے کہ یہ ذات ہڈیوں کے منتشر اجزا یکجا کر سکتی ہے۔

دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ انسان کی پوروں میں موجود لکیریں ہر ایک کی مختلف ہوتی ہیں۔ کسی دو شخص کی آپس میں نہیں ملتیں لہٰذا جو ذات ہر ایک شخص کی شناخت دنیا میں پوروں کی لکیروں کے ذریعہ کروا سکتی ہے کیا وہ قیامت کے دن انسانوں کی ہڈیوں کی شناخت نہیں کر سکے گی۔

ہڈیوں کے ذرات جمع کرنے پر اللہ تعالیٰ کی ذات کا قادر ہونا آج کے طالب علم کے لیے کوئی معمہ نہیں رہا۔ ہمارا روز کا مشاہدہ ہے کہ دانہ جب خاک میں جاتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ نے یہ سمجھ دی ہے کہ زمین کے بیسوں عناصر میں سے کس عنصر کو جذب کرنا ہے۔ اگر دانہ گندم کا ہے تو اس دانے کو پتہ ہے کہ کن عناصر کو جذب کر کے جوڑ دوں تو گندم بن جائے گی۔ اگر یہ دانہ مکئی کا ہے تو اسے علم ہے کہ مکئی اگانے کے لیے کن عناصر کو ملانا ہے۔ اسی طرح دنیا میں وجود میں آنے والے لاکھوں دانوں اور پودوں کا مختلف ہونا عناصر ترکیب کے مختلف کی وجہ سے ہے۔

یہ حقیقت کل کے سطحی لوگوں کے لیے دلیل ہے اور آج کے دانشوروں کے لیے بھی:

وَ اللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ الرِّیٰحَ فَتُثِیۡرُ سَحَابًا فَسُقۡنٰہُ اِلٰی بَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَحۡیَیۡنَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ؕ کَذٰلِکَ النُّشُوۡرُ﴿۹﴾ (۳۵ فاطر: ۹)

اور اللہ ہی ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادل کو اٹھاتی ہیں پھر ہم اسے ایک اجاڑ شہر کی طرف لے جاتے ہیں پھر ہم اس سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیتے ہیں، اسی طرح (قیامت کو) اٹھنا ہو گا۔

وَ یُحۡیِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ؕ وَ کَذٰلِکَ تُخۡرَجُوۡنَ﴿۱۹﴾ (۳۰ روم: ۱۹)

اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے اور اسی طرح تم بھی نکالے جاؤ گے۔

یعنی جس طرح خاک میں موجود عناصر جمع کر کے ہم سبزہ نکالنے پر قادر ہیں اسی طرح تمہارے ذرات جمع کر کے تمہیں زمین سے نکالنے پر قادر ہیں۔ دوسرے لفظوں میں جہاں دانہ اپنے مطلوبہ عناصر پہچان لیتا ہے وہاں کیا اللہ تعالیٰ انسان کے منتشر ذرات نہیں پہچان لے گا؟ فَمَا لَکُمۡ ۟ کَیۡفَ تَحۡکُمُوۡنَ۔ (۱۰ یونس: ۳۵)


آیات 3 - 4