آیات 1 - 2
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ القیامۃ

اس سورۃ کا نام پہلی آیت لَاۤ اُقۡسِمُ بِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ سے ماخوذ ہے۔

ایسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ اعلان رسالت کے بعد یعنی بعثت سے تین سال بعد نازل ہوئی ہے۔ آیات کی تعداد کوفی قرائت کے مطابق ۴۰ اور دوسری قرائتوں کے مطابق ۳۹ ہے۔ کوفی قرائت میں لَا تُحَرِّکۡ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعۡجَلَ بِہٖ ایک مستقل آیت ہے۔ دوسرے کے نزدیک اِنَّ عَلَیۡنَا جَمۡعَہٗ وَ قُرۡاٰنَہٗ تک ایک آیت ہے۔

سب سے پہلے قیامت اور اعادۂ حیات پر اللہ کی قدرت کا ذکر ہے۔ پھر قیام قیامت کی منظر کشی ہے۔ آخر میں ایک با پھر قیام قیامت کے وقوع پذیر ہونے کا ذکر ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لَاۤ اُقۡسِمُ بِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۙ﴿۱﴾

۱۔ قسم کھاتا ہوں روز قیامت کی۔

وَ لَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَۃِ ؕ﴿۲﴾

۲۔ قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس (زندہ ضمیر) کی،

تفسیر آیات

۱۔ لَاۤ: یہ لا خواہ زائدہ ہو یا لا قسمیہ ہو دونوں صورتوں میں قسم کے لیے تاکیدی لفظ ہے جیسے فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ۔۔۔۔ (۴ نساء: ۶۵) میں ہے۔

۲۔ اُقۡسِمُ بِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ: ان دو آیتوں میں قیامت اور نفس لوامہ کی قسم ایک ساتھ کھائی ہے۔ لہٰذا قیامت اور نفس لوامہ (زندہ ضمیر) میں کوئی مناسبت ہونی چاہیے۔ ممکن ہے مناسبت یہ ہو کہ نفس لوامہ اور قیامت دونوں کی طرف سے انسان کا محاسبہ ہوتا ہے۔

نفس لوامہ ملامت اور سرزنش کرنے والا نفس ہے۔ جسے ہم ضمیر اور وجدان بھی کہتے ہیں۔ چنانچہ کسی جرم کے ارتکاب کی صورت میں انسان کو اپنی ضمیر کی عدالت میں حاضر کیا جاتا ہے جہاں نہ کسی کی سفارش چلتی ہے، نہ کسی کا زور کیونکہ جرم کا ارتکاب اسی ضمیر کے سامنے ہوا ہے جس نے فیصلہ سنانا ہے۔ چنانچہ ضمیر کی یہ عدالت قیامت کے دن کی عدالت عظمی کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔ ممکن ہے اسی مناسبت سے قیامت کے ساتھ نفس لوامہ کی قسم کھائی ہو۔


آیات 1 - 2