آیت 180
 

وَ لِلّٰہِ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی فَادۡعُوۡہُ بِہَا ۪ وَ ذَرُوا الَّذِیۡنَ یُلۡحِدُوۡنَ فِیۡۤ اَسۡمَآئِہٖ ؕ سَیُجۡزَوۡنَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۸۰﴾

۱۸۰۔اور زیبا ترین نام اللہ ہی کے لیے ہیں پس تم اسے انہی (اسمائے حسنیٰ) سے پکارو اور جو اللہ کے اسماء میں کج روی کرتے ہیں انہیں چھوڑ دو، وہ عنقریب اپنے کیے کی سزا پائیں گے۔

تشریح کلمات

یُلۡحِدُوۡنَ:

( ل ح د ) الحاد کج روی کرنے کو کہتے ہیں۔ تیر نشانے سے ہٹ جائے تو کہتے ہیں: التحد السہم الہدف تیر کا نشانہ خطا ہو گیا۔

تفسیر آیات

اسم اور مسمی میں ایک ایسا ربط پیدا ہوتا ہے جو ناقابل تفکیک ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ مسمی کا اثر اسم پر بھی پڑتا ہے۔ اگر مسمی آپ کا محبوب ہے تو اس کا اسم بھی آپ کے لیے مناسب، شیرین ہوتا ہے۔ اگر مسمی آپ کا دشمن ہے تو اس کا نام بھی آپ کے لیے قابل نفرت ہوتا ہے۔ انسانی اعضاء میں سے بعض اعضاء کے نام پرکشش ہوتے ہیں۔ جیسے چشم اور بعض اعضاء کے نام انسان صریح لفظوں میں نہیں لیتے بلکہ اس کی طرف کنایہ اور اشارہ کرتے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ معنی کی قباحت لفظ کی طرف سرایت کر چکی ہوتی ہے۔ اسی طرح لفظ اور اسم، مسمی اور معنی پر دلالت کرنے کے لیے ہوتا ہے اور اسم مسمی کے حسن و خوبیوں کو بیان کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ لہٰذا جیساکہ تمام کمالات، حسن اور خوبیاں اللہ کی ذات میں جمع ہیں، اللہ کی ذات پر اطلاق ہونے والے اسماء بھی زیباترین ہیں۔ اس کے کمال ذات اور کمال صفات کی نشاندہی کرتے ہیں، جن سے اس کی عظمت و برتری کا اظہار ہوتا ہے، جن میں کسی قسم کے نقائص و عیوب کا شائبہ نہیں ہوتا اور جن سے اس کی شان میں گستاخی اور سوء ادب نہیں ہوتا۔ اس طرح کے اسمائے حسنی صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہیں۔ ان اسماء اور ان کے معانی کا حقیقی مسمی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے۔ مثلاً ان اسمائے حسنیٰ میں سے حی ، مالک ہے۔ حقیقی حیات اور حقیقی مالکیت صرف اللہ کی ذات کو حاصل ہے۔ دوسری حیات اور مالکیت اللہ کی طرف سے عطا کردہ عارضی چیز ہے۔

فَادۡعُوۡہُ بِہَا: اللہ کو انہی اسمائے حسنیٰ کے ساتھ پکارو۔ آداب بندگی انہی اسماء کے ساتھ پکارنے میں ہے۔ پکارنے میں دعا اور عبادت دونوں شامل ہیں۔

ایک فقہی مسئلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء توقیفی ہیں۔ یعنی اللہ کو صرف انہی اسماء کے ساتھ پکار سکتے ہیں جو روایات میں وارد ہیں اور شریعت کی طرف سے اجازت حاصل ہے۔ انسان خود اپنی طرف سے کوئی اسم جعل نہیں کر سکتا۔ کیونکہ معانی کے تصور کے بعد اس کے مطابق لفظ وضع اور بولا جاتا ہے۔ انسان کے لیے ان معانی قدسیہ کا تصور کماحقہ ممکن نہیں ہے جو ذات باری کے لائق ہیں۔

اسمائے الٰہی میں الحاد اور انحراف یہ ہے کہ اللہ کو ایسے ناموں سے پکارا جائے جو اس کے شایان شان نہ ہوں اور جیسے مسیحی مذہب میں اللہ کو باپ پکارتے ہیں۔

شیعہ سنی مصادر میں اسمائے حسنیٰ کی تعداد کے بارے میں متعدد روایات موجود ہیں:

حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپؑ نے فرمایا:

حضرت علی علیہ السلام فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے اسماء ہیں۔ جو ان اسماء کے ساتھ دعا کرے اس کی دعا قبول ہو گی۔ جو ان اسماء کو شمار کرے وہ جنت میں داخل ہو گا۔ ( الوسائل ۷:۱۴۰۔ صحیح بخاری کتاب الدعوات ۔ صحیح مسلم حدیث: ۴۸۳۵)

تقریبا اسی مضمون کی روایت مسلم اور بخاری نے بھی ا بوہریرہ سے نقل کی ہے :

رسول اللہؐ نے فرمایا: اللہ کے ننانوے اسماء ہیں جو ان کو شمار کرے وہ جنت میں داخل ہو گا۔ وہ طاق ہے، طاق ہی کو پسند فرماتا ہے ۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کے مخصوص اسمائے حسنی ہیں ان کو تلاش کرنا چاہیے جو احادیث و ادعیہ معصومینؑ میں مذکور ہیں: وَ لِلّٰہِ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ۔۔۔۔

۲۔ اللہ نے اسمائے حسنی کے ساتھ پکارنے کا امر فرمایا ہے تو یہ امر قبولی کی ضمانت ہے: فَادۡعُوۡہُ بِہَا ۔

البتہ یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ دعا صرف لفظوں کا ادا کرنا نہیں ہے، اپنے پورے وجود کے ساتھ پکارنے کو دعا کہتے ہیں۔


آیت 180