آیت 179
 

وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ ۫ۖ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ﴿۱۷۹﴾

۱۷۹۔ اور بتحقیق ہم نے جن و انس کی ایک کثیر تعداد کو (گویا) جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل تو ہیں مگر وہ ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے، یہی لوگ تو (حق سے) غافل ہیں۔

تشریح کلمات

الذرأ:

( ذ ر ء ) اللہ نے جس چیز کا ارادہ کیا، اسے ظاہر کر دیا۔ پیدا کرنا، ظاہر کرنا۔ ذرأ خلق کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا: اس آیت سے بادی النظر میں کئی ایک سوالات اٹھتے ہیں کہ اگر اللہ نے جن و انس میں سے کثیر تعداد کو پیدا ہی جہنم کے لیے کیا ہے تو اولاً یہ ظلم ہے، رحمت الٰہی کے منافی ہے۔ ثانیاً جبر لازم آتا ہے کہ جب ان کو پیدا ہی جہنم کے لیے کیا ہے تو انہیں ہر صورت میں جہنم جانا ہو گا۔

جواب یہ ہے کہ یہاں تین صورتیں قابل فرض ہیں:

اول: یہ کہ اللہ مومن، کافر، فرمانبردار اور نافرمان سب کو جنت بھیج دے۔

دو م: یہ کہ سب کو جہنم بھیج دے۔

سوم: یہ کہ مومن کو جنت اور کافر کو جہنم بھیج دے۔

پہلی اور دوسری صورت ناممکن ہونے کی صورت میں تیسری صورت ہی معقول اور عدل و انصاف کے مطابق ہو گی۔ لہٰذا جہنم میں بھیجنا اگرچہ اللہ کا مقصود بالذات نہیں ہے لیکن عدل و انصاف کا لازمہ ہے ۔

لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا۔۔۔: ان کے جہنمی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ رحمت الٰہی کے لیے اہل ثابت نہیں ہوئے۔ ان میں رحمت کے لیے ظرفیت ہی نہیں ہے۔ عقل و حواس اللہ نے جن مقاصد کے لیے دیے تھے، وہ ان میں استعمال ہی نہیں کرتے۔ ایسے لوگ چوپائے کی طرح ہیں،

بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ: بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ہیں۔ چوپائے اپنے ذاتی تکامل و ارتقا کے لیے پیدا نہیں ہوئے بلکہ ان کی غرض خلقت دوسری اشرف و اہم مخلوق یعنی انسان کے لیے مسخر ہونا ہے۔ یہ لوگ ارتقائی منزل پر فائز ہوتے ہیں اور نہ دوسروں کے لیے مسخر ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ لوگ جانوروں سے بھی گئے گزرے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ اسلام، انسانی عقل و حواس کے پاس ہے۔ جو عقل و فطرت سے رجوع نہیں کرتا وہ گمراہ ہے: لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۔۔۔۔

۲۔ انسان جب اپنے مقصد حیات سے منحرف ہو جاتا ہے تو جانوروں سے بھی بدتر ثابت ہوتا ہے: بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ۔


آیت 179