آیات 172 - 174
 

وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ اَشۡہَدَہُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚۛ شَہِدۡنَا ۚۛ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنۡ ہٰذَا غٰفِلِیۡنَ﴿۱۷۲﴾ۙ

۱۷۲۔ اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور ان پر خود انہیں گواہ بنا کر (پوچھا تھا:) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا تھا: ہاں! (تو ہمارا رب ہے) ہم اس کی گواہی دیتے ہیں، (یہ اس لیے ہوا تھا کہ) قیامت کے دن تم یہ نہ کہ سکو کہ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے۔

اَوۡ تَقُوۡلُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَشۡرَکَ اٰبَآؤُنَا مِنۡ قَبۡلُ وَ کُنَّا ذُرِّیَّۃً مِّنۡۢ بَعۡدِہِمۡ ۚ اَفَتُہۡلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ﴿۱۷۳﴾

۱۷۳۔یا یہ کہو کہ شرک تو ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا نے کیا تھا اور ہم تو ان کے بعد کی اولاد ہیں، تو کیا اہل باطل کے قصور کے بدلے میں ہمیں ہلاکت میں ڈالو گے؟

وَ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ وَ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ﴿۱۷۴﴾

۱۷۴۔اور اس طرح ہم آیات کو کھول کر بیان کرتے ہیں شاید کہ یہ لوٹ آئیں۔

تفسیر آیات

قرآن کے مطابق انسان کا ابتدائی اور اصلی دین توحید ہے۔ شرک بعد میں پیدا ہوا۔ مغربی مصنفین پہلے یہ خیال کرتے تھے کہ انسان کا ابتدائی دین شرک تھا، توحید تک بہت بعد میں پہنچا۔ اب وہ بھی اس نتیجے تک پہنچ چکے ہیں کہ انسان کا ابتدائی دین توحید تھا۔

اس آیت اور احادیث سے یہ بات تو سامنے آتی ہے کہ تخلیق اولاد آدمؑ کے موقع پر اولاد آدم سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کا اقرار لیا تھا لیکن یہ بات علماء اور مفکرین کے لیے واضح نہیں ہوئی کہ کیا یہ اقرار اور عہد و میثاق فوق شعور سے لیا تھا؟ یا اس بات کو انسان کے تحت شعور میں فطرت و جبلت کے اندر ودیعت کیا گیا تھا۔

پہلے مؤقف کے مطابق اللہ تعالیٰ نے صلب آدمؑ سے قیامت تک ہونے والی تمام نسلوں کو ذرات کی شکل میں بیک وقت پیدا کیا، ان کو عقل و شعور دیا۔ ان کو قوت گویائی عطا کی اور ان سے اپنی ربوبیت کا اقرار لیا، بعد میں ان ذرات کو صلب بنی آدم میں واپس کر دیا۔ کہتے ہیں کہ جیساکہ کل بروز قیامت تمام انسانوں کو بیک وقت جمع کر کے ان سے حساب لیا جائے گا، بالکل اسی طرح کل عالم زر میں بھی سب کو بیک وقت جمع کر کے ان سے عہد و اقرار لیا گیا تھا۔

دوسرے موقف کے مطابق اللہ نے تخلیق آدمؑ کے موقع پر ان کی فطرت اور سرشت میں معرفت رب ودیعت فرمائی۔ جیسا کہ فرمایا:

فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ٭ۙ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ (۳۰ الروم: ۳۰)

پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں (یعنی) اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے، یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

اور حدیث میں بھی ہے:

کل مولود یولد علی الفطرۃ ۔ (الکافی ۲:۱۲۔ صحیح بخاری حدیث ۱۲۰۶)

ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ (یعنی فطرت توحید پر۔)

ہمارے نزدیک یہی موقف قرین واقع ہے۔ اس موقف پر دیگر آیات قرآنی کے ساتھ احادیث کا ایک قابل توجہ مجموعہ شاہد ہے۔ لہٰذا ہم اس آیت کی اس طرح تشریح کر سکتے ہیں:

جب اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کو اولاد آدم کی پشتوں سے آگے چلایا تو اس وقت ان نسلوں کی جبلت میں اس کے وجود کی جن تارہائے زندگی سے بافتگی ہوئی ہے، ان تاروں میں اپنے رب کی شناخت ودیعت فرمائی۔ ودیعت بھی ایسی راسخ کہ وہ خود اپنی ذات پر گواہ بن جائیں۔ وَ اَشۡہَدَہُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ اور اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ کی آواز پہچان کر بَلٰی کے ساتھ اقرار کریں۔

حضرت علی علیہ السلام، انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے بارے میں فرماتے ہیں:

فَبَعَثَ فِیھِمْ رُسُلَہُ وَ وَاتَرَ اِلَیْھِمْ اَنْبِیَائَہُ لِیَسْتَادُوھُمْ مِیْثَاقَ فِطْرَتِہِ ۔۔۔۔ (نہج البلاغۃ)

اللہ تعالیٰ نے لوگوں میں اپنے رسولوں کو مبعوث فرمایا اور اپنے انبیاء کا سلسلہ جاری رکھا تاکہ ان کو اپنی فطرت عہد و میثاق کی ادائیگی کی دعوت دیں۔

اس سلسلے میں جدید سائنسی معلومات کو اگر دلیل تسلیم نہ کیا جائے تو ان سے تائید ضرور حاصل ہو جاتی ہے۔ انسان کی تخلیق میں کام آنے والے اربوں خلیوں کی پیدائش ایک خلیہ سے ہوئی ہے اور جو سبق ابتدائی خلیے میں موجود جین کو پڑھایا گیا ہے، وہ سبق آنے والے تمام خلیات میں بطور وراثت منتقل ہو جاتا ہے۔ تمام زندہ موجودات کے لیے جبلی ہدایات اللہ تعالیٰ نے خلیہ (Cell) کے مرکزی حصے D.N.A میں ودیعت فرمائی ہیں جو تین ارب نہایت چھوٹے سالموں پر مشتمل ہے اور حیات کا راز انہیں سالموں میں پوشیدہ ہے۔ D.N.A کئی سیکشن ہوتے ہیں۔ جنہیں جین (GENE) کہتے ہیں اور جین ہی میں وہ نقشہ ہوتا ہے جس پر آگے چل کر انسان کی شخصیت کی عمارت استوار ہوتی ہے۔

ممکن ہے اسی طرح کا کوئی عمل وقوع پذیر ہوا ہو، جس کی تفصیل اور کیفیت کا ہمیں علم نہیں ہے۔ تاہم انسان نے اب تک اس سلسلے میں جو پیشرفت کی ہے اور کسی حد تک عالم خلیات کے اندر جھانک کر دیکھا ہے اور تخلیق و تعمیر پر مامور اس محیر العقول لشکر کی حیرت انگیز کرشمہ سازیوں کا مشاہدہ کیا ہے، اس سے اس بات میں کوئی تعجب نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد آدمؑ کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا تو نسل انسانی کی جبلت کے ابتدائی خلیے کو اللہ کی ربوبیت کا درس پڑھایا ہو اور پھر اس سے اس کا اقرار لیا ہو۔ انسان اس کی کیفیت کما ہو نہیں سمجھ سکتا، اس لیے آیت میں تمثیلی انداز اختیارکیا گیا۔ جیسا کہ:

اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الۡجِبَالِ ۔۔۔۔ (۳۳ احزاب: ۷۲)

ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا۔۔۔۔

میں پیش کیا گیا ہے۔

انسان نفسانی خواہشات، منفی تربیت و ماحول اور دیگر عوامل کی وجہ سے فطری تقاضوں سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ مثلاً علم دوستی اور احسان دوستی سب کے نزدیک انسانی فطری تقاضوں میں شامل ہے۔ اس کے باوجود دیگر عوامل کے غالب آنے کی وجہ سے انسان، علم دوست ہوتا ہے نہ احسان پسند۔ البتہ انسان کو اگر علم و احسان کی دعوت دی جائے تو وہ فطرت کی آواز پہچان لیتا ہے۔

اگر انسان سے یہ عہد و میثاق نہ لیا گیا ہوتا تو انسان کے لیے معرفت حق ممکن نہ رہتی یا دوسرے لفظوں میں انسانی جبلت میں معرفت رب کی صلاحیت ودیعت نہ ہوئی ہوتی تو رب کی معرفت نہ ہوتی۔ دونوں مؤقفوں کا کہنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام اس قدیم عہد و میثاق کو یاد دلانے کے لیے آئے ہیں۔ اگر یہ قدیم عہد و میثاق نہ ہوتا تو انبیاء کی دعوت کو ہرگز پذیرائی نہ ملتی۔ یعنی اگر انسان کے وجود میں توحید کی طلب نہ ہوتی تو دعوت انبیاء کی رسد کا کوئی خریدار نہ ہوتا۔ نقاش ازل نے نقش توحید کو لوح دل پر کندہ کر دیا تھا، اس لیے آج انبیاء علیہم السلام کے یاد دلانے پر وہ اس تحریر کو پڑھ لیتا ہے۔ ورنہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت صدا بصحرا ثابت ہوتی۔

معرفت نقش ہو گئی، واقعہ بھول گئے

یعنی سبق یاد ہے، کلاس بھول گئے

روایت ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپؑ نے فرمایا:

ثبتت المعرفۃ فی قلوبھم و نسوا الموقف و سیذکرونہ یوماً و لو لا ذلک لم یدر احد من خالقہ و لا رازقہ ۔ ( بحار الانوار ۳:۲۸۰)

لوگوں کے دلوں میں معرفت نقش ہو گئی لیکن واقعہ بھول گئے۔ ایک دن انہیں واقعہ بھی یاد آئے گا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کسی کو علم ہی نہیں ہو سکتا تھا کہ اس کا خالق و رازق کون ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس عہد و میثاق کی کیفیت خواہ کچھ ہو، اس سے معرفت حق، انسان کے وجود میں نقش ہو گئی اور معرفت حق کی صلاحیت آگئی۔ دوسرے لفظوں میں اس طرح کہنا چاہیے کہ اگرچہ وہ کلاس کے تفصیلی واقعات تو بھول گیا لیکن سبق یاد ہے۔

ہماری بحث بھی اسی سبق سے ہے جو انسان کو یاد ہے۔ اگر انسان کی فطرت میں سرے سے کوئی بات موجود ہی نہ ہوتی تو کسی طاقت کے بس میں نہیں تھا کہ وہ بات اس میں پیدا کرے۔ مثلاً اگر انسان میں تعلیم کی صلاحیت بالکل مفقود ہوتی تو کوئی طاقت انسان کی سرشت میں یہ صلاحیت شامل نہیں کر سکتی اور اگر یہ صلاحیت انسان کی سرشت میں موجود ہو تو کوئی طاقت اس کو ختم نہیں کر سکتی، البتہ منحرف کر سکتی ہے۔

اس وضاحت کے بعد یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اگر ایسا کوئی عہد و میثاق عمل میں آیا تھا تو وہ ہمارے شعور و حافظہ میں کیوں نہیں ہے؟ ہم میں سے کسی کو علم ہی نہیں کہ ہم نے کسی اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ کے جواب میں ہاں کہی تھی اور جب یہ یاد ہی نہیں تو ہمارے خلاف حجیت کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ سوال اس لیے پیدا نہیں ہوتا کہ ہم اگر بھول گئے ہیں تو کلاس کی تفصیلات بھول گئے ہیں لیکن سبق تو ہمیں یاد ہے۔ اسی وجہ سے ہم فطرت کی آواز کو پہچانتے ہیں اور اس کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔


آیات 172 - 174