آیت 50
 

وَ نَادٰۤی اَصۡحٰبُ النَّارِ اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ اَنۡ اَفِیۡضُوۡا عَلَیۡنَا مِنَ الۡمَآءِ اَوۡ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ ؕ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَہُمَا عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿ۙ۵۰﴾

۵۰۔اور اہل جہنم اہل جنت کو پکاریں گے: تھوڑا پانی ہم پر انڈیل دو یا جو رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کچھ ہمیں دے دو، وہ جواب دیں گے: اللہ نے جنت کا پانی اور رزق کافروں پر حرام کیا ہے۔

تفسیر آیات

اہل جہنم ہر طرف سے عذاب میں گھیرے ہوئے ہوں گے۔ منجملہ بھوک اور پیاس کے عذاب میں ہوں گے۔ اس پر مزید عذاب یہ کہ وہ اہل جنت کو نعمتوں کی فروانی میں دیکھتے بھی ہوں گے۔ تب ہی تو وہ اہل جنت سے پانی اور رزق مانگ رہے ہوں گے۔

اس آیت سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ اہل جنت اور اہل جہنم آپس میں ایک دوسرے سے گفتگو کر سکتے ہیں۔ ہماری اس دنیا کی زندگی میں ایک دوسرے سے گفتگو ہوا کے ارتعاش کے ذریعے ہو جاتی ہے۔ اگر فاصلہ ہو تو دوسرے ذرائع ایجاد ہوئے ہیں لیکن آخرت میں فاصلے رکاوٹ بنیں گے یا گفتگو کے لیے آواز درکار ہوگی؟ وغیرہ۔ ان چیزوں کو ہم دنیاوی نظام پر قیاس نہیں کر سکتے۔

اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَہُمَا: یہ تحریم تکوینی یعنی قانوناً نہیں بلکہ عملاً ان کو محروم کر دیا گیا ہے۔

اہم نکات

۱۔ جہنم والوں کی طرف نگاہ کرنا بھی قابل تحمل نہ ہو گا: وَ اِذَا صُرِفَتۡ اَبۡصَارُہُمۡ ۔۔۔۔

۲۔ دنیا میں کسی کی اکثریت یا گروہ و جماعت قیامت کے دن کوئی فائدہ نہ دے گی: مَاۤ اَغۡنٰی عَنۡکُمۡ جَمۡعُکُمۡ ۔۔۔۔

۳۔دنیا میں جو لوگ اہل ایمان کی تحقیر و تذلیل کریں گے وہی لوگ کل اہل ایمان کے سامنے حقیر و ذلیل ہوں گے: اَہٰۤؤُلَآءِ الَّذِیۡنَ اَقۡسَمۡتُمۡ لَا یَنَالُہُمُ اللّٰہُ بِرَحۡمَۃٍ ۔۔۔۔

۴۔ پانی کو دنیا و آخرت دونوں میں بنیادی حیثیت حاصل ہے: اَفِیۡضُوۡا عَلَیۡنَا مِنَ الۡمَآءِ ۔۔۔۔


آیت 50