آیات 44 - 45
 

وَ نَادٰۤی اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ اَصۡحٰبَ النَّارِ اَنۡ قَدۡ وَجَدۡنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَہَلۡ وَجَدۡتُّمۡ مَّا وَعَدَ رَبُّکُمۡ حَقًّا ؕ قَالُوۡا نَعَمۡ ۚ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ لَّعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙ۴۴﴾

۴۴۔اور اہل جنت اہل جہنم سے پکار کر کہیں گے:ہم نے وہ تمام وعدے سچے پائے جو ہمارے رب نے ہم سے کیے تھے، کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدوں کو سچا پایا؟ وہ جواب دیں گے:ہاں، تو ان (دونوں) کے درمیان میں سے ایک پکارنے والا پکارے گا: ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو۔

الَّذِیۡنَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ یَبۡغُوۡنَہَا عِوَجًا ۚ وَ ہُمۡ بِالۡاٰخِرَۃِ کٰفِرُوۡنَ ﴿ۘ۴۵﴾

۴۵۔جو لوگوں کو راہ خدا سے روکتے اور اس میں کجی پیدا کرنا چاہتے تھے اور وہ آخرت کے منکر تھے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ نَادٰۤی اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ اَصۡحٰبَ النَّارِ: اہل جنت اہل جہنم کو پکاریں گے۔ یعنی ان دونوں میں مکالمہ ہو گا یہ مکالمہ جنت میں داخل ہونے سے پہلے اعراف کی جگہ ہو گا۔ جہاں اہل جنت اور اہل جہنم نے اپنا اپنا راستہ لینا ہے۔

اس مکالمہ کا مضمون یہ ہے کہ اہل جنت اپنی کامیابی پر فخر کرتے ہوں گے کہ وہ تمام وعدے سچے پائے جو ہمارے پروردگار نے ہم سے کیے تھے اور ساتھ یہ تمسخر بھی ہو گا: کافرو! کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدوں کو سچ پایا؟ وہ کہیں گے: ہاں۔

اہل جنت اللہ کی نعمتوں پر فخر کریں گے اور کافروں کے ساتھ تمسخرانہ لہجے میں بات کریں گے کیونکہ یہ لوگ دنیا میں اہل ایمان کا مزاح اڑاتے تھے۔ اگرچہ تمسخر کرنا خود اپنی جگہ ایک مستحسن عمل نہیں ہے، تاہم ان لوگوں کے ساتھ تمسخر کرنے میں کوئی حرج نہیں جو خود دوسروں سے تمسخر کرتے رہے ہیں۔

ثانیاً اہل جنت اور اہل جہنم کے اس مکالمے سے اہل جنت کو نعمتوں کی قدر و قیمت زیادہ ہوتی ہے اور اہل جہنم کی حسرت و ندامت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس مکالمے میں دونوں مستحقین کے لیے ثواب و عذاب دونوں موجود ہیں۔

۲۔ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ: اس موقع پر ایک اذان دینے والے نے اذان دی۔ یعنی اعلان کیا۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ میں ایک خطبہ میں فرمایا :

انا المؤذن فی الدنیا والآخرۃ قال اللہ تعالیٰ: فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ لَّعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ انا ذلک المؤذن و قال: وَاَذَانٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ انا ذلک المؤذن ۔ (بحار الانوار ۲۳: ۲۸۲ باب نوادر الاحتجاج علی معاویۃ۔ میر کشفی نے مناقب مرتضوی صفحہ ۶۰ میں روح المعانی ۸: ۱۰۷ ط مصر ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہ مؤذن علی علیہ السلام ہیں)

میں دنیا و آخرت دونوں کا مؤذن ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ لَّعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ میں ہی وہ مؤذن ہوں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَاَذَانٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ ۔ یہاں بھی میں مؤذن ہوں۔

محمد بن الحنفیۃ راوی ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

انا ذلک المؤذن ۔

وہ مؤذن میں ہوں۔

ملاحظہ ہو شواہد التنزیل ذیل آیت۔

ابن عباس کہتے ہیں:

قرآن میں علی علیہ السلام کے کچھ نام ایسے بھی ہیں جو لوگ نہیں جانتے۔ ان میں سے ایک فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیۡنَہُمۡ ہے۔

ملاحظہ ہو شواہد التنزیل ذیل آیت۔

ابن مردویہ نے مناقب علی علیہ السلام میں روایت کی ہے کہ یہ مؤذن امیر المؤمنین علیہ السلام ہیں۔ ملاحظہ ہو کشف الغمۃ اربلی ۱: ۳۲۱۔

یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مشرکین سے برائت کا اعلان، بحکم خدا و رسولؐ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا جو دنیا میں کفر و ایمان کے درمیان ایک فیصلہ کن اعلان اور نتیجہ خیز اذان تھی۔ کفر و ایمان میں ہمیشہ کے لیے امتیاز کی اذان، حق و باطل میں ایک فیصلہ کن اذان، شرک کی نفی کرنے والی توحیدی اذان، رسولؐ کی رسالت کی کامیابی کی اذان اور حقیقی معنوں میں یہ فتح کی اذان تھی۔

آخرت میں ہونے والی یہ اذان اسی اذان مکہ کا تسلسل ہے۔ وہی حق والوں کی اذان، اہل جنت و جہنم میں امتیاز کی اذان، اب برائت کی نہیں، ظالموں پر لعنت کی اذان، ایک نہایت فیصلہ کن اذان، تاریخ اذان کی سب سے بڑی اذان اور سب سے آخری اذان۔ وَ اَذِّنۡ فِی النَّاسِ بِالۡحَجِّ ۔۔۔۔ (۲۲ حج : ۲۷) اذان ابراہیمی کے وارث کی اذان۔ البتہ دنیا کی اذان مشرکین سے برائت کی اذان تھی مگر آخرت کی اذا ظالموں پر لعنت کی اذان ہے۔ ظالموں کا دائرہ وسیع ہے۔

۳۔ بَیۡنَہُمۡ: ان کے درمیان یعنی یہ موذن ان دونوں فریقوں کے درمیان ہو گا۔ چنانچہ اگلی آیت میں اصحاب اعراف کے بارے میں ذکر آئے گا کہ وہ ان کے درمیان میں ہوں گے۔

اہم نکات

۱۔ روز قیامت کی فضیحت سے بچنے اور اہل جنت میں شامل ہونے کے لیے ظلم بر نفس، ظلم بر غیر سے بچنا ہو گا ۔

۲۔ اذان ابراہیم، اذا ن برائت اور اذان لعنت، تحریک توحید کی اہم اذانیں ہیں۔


آیات 44 - 45