آیت 34
 

وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُہُمۡ لَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَۃً وَّ لَا یَسۡتَقۡدِمُوۡنَ﴿۳۴﴾

۳۴۔ اور ہر قوم کے لیے ایک وقت مقرر ہے پس جب ان کا مقررہ وقت آ جاتا ہے تو نہ ایک گھڑی تاخیر کر سکتے ہیں اور نہ جلدی۔

تشریح کلمات

اَجَلٌ:

( ا ج ل )کسی چیز کی مقررہ مدت کے معنوں میں ہے۔مدت حیات پوری کرلینے کو بھی اجل کہتے ہیں۔

سَاعَۃً:

اجزائے زمانہ میں سے ایک جزو کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

ہر قوم و ملت کے لیے عروج و زوال ہوتاہے اور ہر عروج و زوال کے پیچھے اس کے علل و اسباب کارفرما ہوتے ہیں۔ یہی سنت الٰہی ہے، جس کا قرآن اکثر حوالہ دیا کرتا ہے:

سُنَّۃَ اللّٰہِ فِی الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَ کَانَ اَمۡرُ اللّٰہِ قَدَرًا مَّقۡدُوۡرَۨا ۔۔۔۔ (۳۳ احزاب : ۳۸)

جو (انبیاء) پہلے گزر چکے ہیں ان کے لیے بھی اللہ کی سنت یہی رہی ہے اور اللہ کا حکم حقیقی انداز سے طے شدہ ہوتا ہے۔

جب کوئی قوم برائیوں کے ارتکاب میں حد سے گزر جاتی ہے تو اس بدکار قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس سے پہلے ہم کئی بار اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ کسی قوم نے اپنے نبی سے معجزے کا مطالبہ کیا اور نبی نے وہ معجزہ پیش کیا، وہ نہ مانے تو اس وقت ان پر عذاب نازل ہو جاتا۔ جیسے قوم صالح کے ساتھ ہوا۔

اگر قوم راہ حق پر ثابت قدم رہتی ہے تو اللہ اسے اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے:

وَّ اَنۡ لَّوِ اسۡتَقَامُوۡا عَلَی الطَّرِیۡقَۃِ لَاَسۡقَیۡنٰہُمۡ مَّآءً غَدَقًا (۷۲جن: ۱۶)

اور (انہیں یہ بھی سمجھا دیں کہ) اگر یہ لوگ اسی راہ پر ثابت قدم رہتے تو ہم انہیں وافر پانی سے سیراب کرتے۔

امت مسلمہ اللہ کے اس کلی قانون سے مستثنیٰ نہیں ہے، عروج و زوال کے اس قانون کی زد میں رہے گی۔ البتہ امت مسلمہ پر عذاب نازل نہ ہو گا۔ کیونکہ اس امت کے رسولؐ، عالمین کے لیے رحمت ہیں اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ بھی ہے :

وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَ اَنۡتَ فِیۡہِمۡ ؕ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمۡ وَ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ (۸ انفال: ۳۳)

اور اللہ ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا جب تک آپ ان کے درمیان موجود ہیں اور نہ ہی اللہ انہیں عذاب دینے والا ہے جب وہ استغفار کر رہے ہوں۔

رہا امت مسلمہ کی عظمت کا زوال۔ یہ ممکن ہے بلکہ ا س وقت وقوع پذیر بھی ہے ۔ کیونکہ یہ زوال اس کے علل و اسباب کی وجہ سے ہی آتا ہے اور جب اس کے علل و اسباب موجود ہوں گے تو زوال کا آنا لازمی ہو گا ۔ لہٰذا زوال ان علل و اسباب سے پہلے آسکتا ہے نہ علل و اسباب آنے کے بعد تاخیر ہو سکتی ہے کیونکہ یہ زوال طبیعی امکانات کے طور پر ہو گا۔ طبیعی مکافات تاخیر پذیر نہیں ہوتے:

مَا تَسۡبِقُ مِنۡ اُمَّۃٍ اَجَلَہَا وَ مَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ (۱۵ حجر: ۵)

کوئی قوم اپنی معینہ مدت سے نہ آگے نکل سکتی ہے اور نہ پیچھے رہ سکتی ہے۔

زوال کے علل و اسباب میں سے خیانت، بد نظمی، کاہلی اور اپنے عوام پر ظلم ہے۔ قانون فطرت اور مکافات عمل میں نظم و ضبط کا معجزانہ دخل ہے کہ دنیا کا بدترین ظلم بھی اگر ایک نظم و ضبط کے ساتھ کیا جائے تو وہ ظلم محسوس ہی نہیں ہوتا۔ چنانچہ جدید مہذب اور تعلیم یافتہ جاہلیت نے یہی کیا ہے کہ اقوام عالم پر ظلم اور زیادتی ایک منظم انداز میں جاری رکھی ہوئی ہے۔ مصر کے ایک شاعرنے کیا خوب کہا ہے:

لقد کان ہذا الظلم فوضی فھذبت

حواشیہ حتی صار ظلما منظما

یہ ظلم پہلے بدنظمی کا شکار تھا، اب اس کی نوک پلک درست کی گئی تو یہ ظلم منظم ہو گیا ہے۔

قرآن قوموں کے زوال کے درج ذیل اسباب ذکر کرتا ہے:

i۔ صالح افراد امت اگر ملک کے تدبیر امور میں شریک اور مشیر رہیں تو یہ قوم ترقی کی راہوں پر گامزن رہتی ہے لیکن جب صالح افراد بے بس، فرمانبردار اور بے اختیار رہیں توغیر صالح اقتدار والوں کی ہوس رانی کو آزادی مل جاتی ہے۔ وہ اس قوم کو قعر مذلت تک پہنچا دیتے ہیں:

وَ قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّاۤ اَطَعۡنَا سَادَتَنَا وَ کُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوۡنَا السَّبِیۡلَا (۳۳ احزاب: ۶۷)

اور وہ کہیں گے: ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی تھی، پس انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا۔

ii۔ کسی امت او ر قوم کے مقدرات پر چند خاندانوں کا تسلط قائم ہو جائے تو اس صورت میں تمام قدروں کو پامال کیا جاتا ہے اور جرائم کے سامنے کوئی روک تھام نہ ہو گی:

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا فِیۡ کُلِّ قَرۡیَۃٍ اَکٰبِرَ مُجۡرِمِیۡہَا لِیَمۡکُرُوۡا فِیۡہَا ؕ وَ مَا یَمۡکُرُوۡنَ اِلَّا بِاَنۡفُسِہِمۡ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ (۶ انعام : ۱۲۳)

اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے بڑے بڑے مجرموں کو پیدا کیا کہ وہاں پر (برے) منصوبے بناتے رہیں (درحقیقت) وہ غیر شعوری طور پر اپنے ہی خلاف منصوبے بناتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ افراد کی طرح قوموں کی بھی عمریں ہوتی ہیں۔ جس طرح بعض صحت اور نفسیاتی اصولوں پر عمل کرنے سے فرد صحت مند ہو جاتا ہے اور عمر لمبی ہوتی ہے، بالکل اسی طرح بعض اصولوں پر عمل کرنے سے قومیں ترقی کرتی ہیں۔ ان پر عمل ترک کرنے سے قومیں ہلاکت میں پڑ جاتی ہیں۔

۲۔ مادی تنزل و ترقی کا دار و مدار، مادی علل و اسباب پر ہے۔ ایمان و عبادات کے اپنے اثرات ہیں۔ یہ چیزیں مادی علل و اسباب کی جگہ نہیں لیتیں۔ مثلاً فصل کے لیے تسبیح و عبادت کھاد کا کام نہیں دے سکتی۔


آیت 34