آیات 8 - 9
 

وَ الۡوَزۡنُ یَوۡمَئِذِ ۣالۡحَقُّ ۚ فَمَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِیۡنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴿۸﴾

۸۔اور اس دن (اعمال کا) تولنا برحق ہے، پھر جن (کے اعمال) کا پلڑا بھاری ہو گا پس وہی فلاح پائیں گے ۔

وَ مَنۡ خَفَّتۡ مَوَازِیۡنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ بِمَا کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یَظۡلِمُوۡنَ﴿۹﴾

۹۔ اور جن کا پلڑا ہلکا ہو گا وہ لوگ ہماری آیات سے زیادتی کے سبب خود گھاٹے میں رہے۔

تفسیر آیات

آیت سے یہ بات تو ثابت ہو جاتی ہے کہ نیکیوں کا وزن ہوتا ہے اور ا س کے مقابلے میں گناہوں کا وزن نہیں ہوتا۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمۡ وَ لِقَآئِہٖ فَحَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ فَلَا نُقِیۡمُ لَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَزۡنًا (۱۸ کہف: ۱۰۵)

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی نشانیوں اور اللہ کے حضور جانے کاانکار کیا جس سے ان کے اعمال برباد ہو گئے، لہٰذا ہم قیامت کے دن ان کے (اعمال کے) لیے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔

لہٰذا اعمال کے وزن کے بارے میں کسی تاویل و توجیہ کی طرف جانے کی بجائے خود قرآن کی تعبیر کے مطابق یہ مؤقف اختیار کرنا درست ہو گا: انسان کے اعمال اللہ کے معیار کے مطابق یا مثبت ہوں گے یا منفی۔ مثبت اعمال کا قیامت کے دن وزن اور قیمت ہو گی اور منفی اعمال بے وزن اور بے قدر ہوں گے۔ چنانچہ زیر بحث آیت اور دیگر متعدد آیات میں نیکیوں کے لیے وزن ثابت ہوا ہے اور گناہوں کو بے وزن کہا ہے۔ قرآنی تعبیر ثَقُلَتۡ اور خَفَّتۡ میں وہی موازنہ ہے جو مثبت اور منفی، قیمتی اور بے قدری میں ہے۔ لہٰذا ثقل سے وزن، قدر اور قیمت کی طرف اشارہ ہے اور خَفَّتۡ سے بے قیمت اور بے قدری کی طرف اشارہ ہے۔ اس طرح اعمال کے وزن کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جس کی نیکیاں زیادہ ہوں گی، اس کا مثبت پہلو غالب رہے گا اور وہ فلاح پائے گا اور جس کا منفی پہلو غالب آئے گا، وہ ہلاکت میں ہو گا۔

ہشام بن حکم حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں:

آپؑ سے ایک زندیق نے سوال کیا کہ کیا اعمال کا وزن کیا جاتا ہے؟

فرمایا: نہیں۔ اعمال کوئی جسم نہیں بلکہ یہ تو ان کے کردار کے وصف کا نام ہے۔ وزن تو وہ کرتا ہے جس کو اشیاء کی تعداد کا علم نہ ہو اور اس وزن اور خفت کا علم بھی نہ ہو۔ اللہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔

زندیق نے پوچھا: تو میزان سے کیا مراد ہے؟

فرمایا: اس سے مراد انصاف ہے۔

زندیق نے کہا: پھر فَمَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِیۡنُہٗ کا کیا مطلب ہے؟

فرمایا: جس کا عمل غالب آئے۔ (المیزان ۸: ۱۶)

بعض دیگر احا دیث میں انبیاء اور اوصیاء علیہم السلام کو مقیاس اور معیار قرار دیا ہے ۔ اس طرح قیامت کے ترازو کا مفہوم بھی قابل فہم ہو جاتا ہے کہ اعمال کو تولنے سے کیا مراد ہے؟ چنانچہ میزان اس چیز کو کہتے ہیں جس پر چیزوں کو پرکھا جاتا ہے۔ لہٰذا انبیاء و اوصیاء ہی میزان اور ترازو اور الٰہی معیار کی اساس ہیں، جن پر دوسرے بندوں کے اعمال کی قیمت لگائی جائے گی۔


آیات 8 - 9