آیات 1 - 2
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ القلم

سورۃ کے شروع میں لفظ وَ الۡقَلَمِ مذکور ہونے کے سبب سورۃ کا نام القلم مقرر ہوا۔

یہ سورۃ مکی ہے لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس سورۃ کا کچھ حصہ مکہ میں اور کچھ حصہ مدینہ میں نازل ہوا۔

اس سورۃ مبارکہ کے مضامین میں اہم مضمون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی اور تقویت دینے پر مشتمل ہے۔

جہاں دشمنوں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مجنون کہا وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو صاحب خلق عظیم فرمایا۔

نیز یہ بشارت بھی دے دی کہ آنے والا وقت بتا دے گا کہ مجنون کون ہے۔ پھر نشاندہی فرمائی کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کس کس قسم کے لوگوں کی بات سننے سے بچنا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

نٓ وَ الۡقَلَمِ وَ مَا یَسۡطُرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾

۱۔ نون، قسم ہے قلم کی اور اس کی جسے (لکھنے والے) لکھتے ہیں۔

مَاۤ اَنۡتَ بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ بِمَجۡنُوۡنٍ ۚ﴿۲﴾

۲۔ آپ اپنے رب کے فضل سے دیوانے نہیں ہیں۔

تشریح کلمات

قلم:

( ق ل م ) اس کے اصل معنی سخت چیز تراشنے کے ہیں، لہٰذا ناخن ، بانس کی گرہ اور سرکنڈے وغیرہ تراشنے پر قلم کا لفظ بولا جاتا ہے۔

انسان کے تبادلہ افکار اور معانی و مطالب کو ایک دوسرے کے ذہن میں منتقل کرنے کا ایک ذریعہ یہ ہو سکتا ہے کہ خود معنی کو مخاطب کے سامنے پیش کیا جائے۔ مثلاً اگر کسی کو پانی بتانا ہو تو خودپانی پیش کر کے اس کو سمجھایا جائے لیکن یہ کام تو کبھی مشکل اور کبھی ناممکن ہوتا ہے۔ اس لیے انسان نے اس مقصد کے لیے الفاظ ایجاد کیے اور لفظوں کے ذریعے معانی و مطالب کا افہام و تفہیم آسان ہو گیا۔ پھر الفاظ کو محفوظ کرنے کا طریقہ بھی ایجاد کیا۔ اس کی ابتدائی صورت تصویری کتابت تھی جس میں مسماری کتابت شامل ہے جس کو اہل بابل آشوریوں نے ایجاد کیا، اس کے بعد رموز و علامات ایجاد ہوئے۔ آخر میں آواز کے لیے علامات وضع ہوئیں۔ اس طرح حروف کی ایجاد عمل میں آ گئی اور الفاظ کو لکیروں کی شکل میں آنے والے حروف کے ذریعے محفوظ کر لیا گیا اور حروف کو مکتوبی شکل میں لانے والا آلہ قلم ہے۔ لہٰذا قلم انسان کی دوسری زبان ہے۔

جب سے انسان نے قلم ہاتھ میں لیا تہذیب و تمدن میں قدم رکھا اور قلم ہی کے ذریعے علوم و افکار محفوظ ہوئے اور علوم و فنون نے ترقی کی اور قلم ہی کے ذریعے آنے والی نسلیں اپنے اسلاف کے علوم کی وارث بن گئیں اور علم و فن، تہذیب و تمدن وراثت میں مل گئے اور پچھلی نسلوں کے تجربات اگلی نسلوں کی طرف منتقل ہو گئے۔

اس جگہ قلم جیسی نعمت کے ساتھ کتابت حدیث کو ممنوع قرار دے کر ناانصافیاں ہوئی ہیں۔ اس داستان غم کو تو یہاں بیان نہیں کر سکتے۔ صرف تفسیر المنار ۶: ۲۸۸ میں رشید رضا کی عبارت نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:

ونحن نجزم باننا نسینا و اضعنا من حدیث نبینا حظا عظیما لعدم کتابۃ علماء الصحابۃ کلما سمعوہ۔

ہمیں یقین ہے کہ ہم نے اپنے نبی کی حدیث میں سے بہت بڑے حصے کو اس لیے فراموش اور ضائع کر دیا چونکہ علمائے صحابہ نے جو کچھ سنا تھا، نہیں لکھا۔

واضح رہے کتابت حدیث ممنوع ہونے کے اثرات سے مکتب اہل بیت محفوظ رہا ہے چونکہ عصر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی میں حدیث کو باملاء من رسول اللہ و بخط علی محفوظ کر لیا گیا تھا، چنانچہ یہ بات مکتب اہل بیت میں تواتر سے ثابت ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ نٓ وَ الۡقَلَمِ: قسم ہے قلم کی۔ بظاہر یہاں قلم سے مراد جنس قلم ہے خواہ وہ قلم آسمانی ہو یا زمینی اور اللہ نے قلم کے ذریعے تعلیم دینے کے احسان کا ذکر کیا ہے:

اِقۡرَاۡ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ ﴿۵﴾ (۹۶ علق:۳ تا ۵)

پڑھیے! اور آپ کا رب بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے سے تعلیم دی۔ اس نے انسان کو وہ علم سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔

اور تطبیقی مرحلے میں اس قلم پر پہلے صادق آتا ہے جو مکی زندگی میں کتابت وحی کے لیے کام میں لایا جاتا تھا۔

۲۔ وَ مَا یَسۡطُرُوۡنَ: اور قسم ہے اس چیز کی جسے لکھنے والے لکھتے ہیں۔ یعنی قسم ہے اس قلم کی جس سے وحی لکھی جاتی ہے اور قسم ہے ان آیات قرآنی کی جو ان قلموں سے لکھی جاتی ہیں اور یَسۡطُرُوۡنَ فعل مستقبل ہے۔ آئندہ آنے والی نسلوں میں اس قرآن کو لکھنے والے لکھتے رہیں گے۔ اس معجزہ الٰہی کو دوام ملے گا اور رہتی دنیا تک ثبت رہے گا

۳۔ مَاۤ اَنۡتَ بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ بِمَجۡنُوۡنٍ: کہ آپ اپنے رب کے فضل و کرم سے مجنون نہیں ہیں۔ آپ ایک دستور حیات کے عنوان سے انسانیت کے لیے ایک زندہ معجزہ دے رہے ہیں۔ رہتی دنیا تک رہنے والی تحریروں کی قسم! جس نے یہ ابدی معجزہ، ایک جامع نظام حیات پیش کیا ہے، منظم قوانین وضع کر کے دنیا کو تہذیب و تمدن دیا، وہ مجنون نہیں ہو سکتا۔


آیات 1 - 2