آیات 3 - 4
 

الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ؕ مَا تَرٰی فِیۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ ؕ فَارۡجِعِ الۡبَصَرَ ۙ ہَلۡ تَرٰی مِنۡ فُطُوۡرٍ﴿۳﴾

۳۔ اس نے سات آسمانوں کو ایک دوسرے کے اوپر بنایا، تو رحمن کی تخلیق میں کوئی بدنظمی نہیں دیکھے گا، ذرا پھر پلٹ کر دیکھو کیا تم کوئی خلل پاتے ہو؟

ثُمَّ ارۡجِعِ الۡبَصَرَ کَرَّتَیۡنِ یَنۡقَلِبۡ اِلَیۡکَ الۡبَصَرُ خَاسِئًا وَّ ہُوَ حَسِیۡرٌ﴿۴﴾

۴۔ پھر پلٹ کر دوبارہ دیکھو تمہاری نگاہ ناکام ہو کر تھک کر تمہاری طرف لوٹ آئے گی۔

تشریح کلمات

حَسِیۡرٌ:

( ح س ر ) تھک جانا، ناکام ہو جانا۔

تفسیر آیات

۱۔ الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا: سات آسمانوں کو یکے بالائے دیگرے بنایا یا معنی یہ ہو سکتے ہیں: ساتوں آسمان ایک دوسرے کے مطابق ایک جیسے بنائے چونکہ ان تمام آسمانوں کو ایک ہی چیز دخان سے بنایا ہے۔

ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ وَ ہِیَ دُخَانٌ۔۔۔۔ (۴۱ فصلتٔ: ۱۱)

پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا۔

۲۔ مَا تَرٰی فِیۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ: تو رحمن کی تخلیق میں کوئی بدنظمی نہیں دیکھے گا۔ کائنات کی تمام چیزیں باہم مربوط، نتیجہ خیز اور حیات بخش ہیں۔

فری مین ڈائسن (Freeman Dyson) کہتے ہیں:

جوں جوں میں کائنات کو دیکھتا اور اس کی ساخت کا مطالعہ کرتا ہوں اتنا میرے اس یقین پر اضافہ ہو جاتا ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے اسے ہماری آمد کی پیشگی اطلاع مل چکی ہو گی۔ (مختصر تاریخ موجودات)

سورج کی دھوپ سے سمندر سے بخارات اٹھتے ہیں، بادل وجود میں آتے ہیں، ہوا بادلوں کو چلاتی ہے، خشک علاقوں میں بارش برستی ہے، دانے اور میوے اُگتے ہیں، دسترخوانوں کی زینت بنتے ہیں، غذا بن جاتے ہیں، پھر خون بن جاتے ہیں، یہ خون تحلیل شدہ جسم کی تلافی کر کے اس کا حصہ بن جاتے ہیں، تحلیل شدہ جسم کاربن کی شکل میں کسی درخت کا حصہ بن جاتے ہیں، وہ درخت پھل دیتا ہے، یہ دورہ پھر شروع ہو جاتا ہے۔

۳۔ فَارۡجِعِ الۡبَصَرَ: پھر پلٹ کر نظرثانی کرو۔ جدید تحقیق کرو۔ اپنے تجربات کو دہراؤ۔ تمام وسائل بروئے کار لے آؤ۔

۴۔ ہَلۡ تَرٰی مِنۡ فُطُوۡرٍ: اس پورے سلسلے اور اس نظم میں موجود کسی کڑی اور اس حکیمانہ گردش میں کوئی خلل ہے؟ دھوپ اور مٹی میں، مٹی اور پانی میں، پانی، مٹی اور جانداروں میں پھر گردش لیل و نہار وغیرہ وغیرہ میں کوئی تضاد ہے؟

۵۔ ثُمَّ ارۡجِعِ الۡبَصَرَ کَرَّتَیۡنِ: اللہ تعالیٰ کی صناعی کا بار بار مطالعہ کرنے کا حکم ہے کہ تلاش کرو کہ اللہ تعالیٰ کے تخلیقی نظام میں کہیں خلل نظر آتا ہے؟ کَرَّتَیۡنِ صرف دو مرتبہ کے لیے نہیں بلکہ لَبَّیْکَ وَ سَعْدَیْکَ کی طرح بار بار کرنے کے لیے ہے۔ یعنی اپنی تحقیق نسلاً بعد نسلٍ جاری رکھو۔

۶۔ یَنۡقَلِبۡ اِلَیۡکَ الۡبَصَرُ: آخرکار ان تمام پے در پے تحقیقات کے بعد نگاہیں ناکام ہو کر لوٹ آئیں گی۔ خَاسِئًا ناکام اور تھک ہار کر رہ جائیں گی اس کائنات میں کوئی خلل تلاش نہیں کر سکیں گی۔

جہاں چون چشم و خط و خال و آبرو است

کہ ہر چیزش بجای خویش نیکو است


آیات 3 - 4