آیت 2
 

الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡغَفُوۡرُ ۙ﴿۲﴾

۲۔ اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے اور وہ بڑا غالب آنے والا، بخشنے والا ہے۔

تفسیر آیات

کائنات کی ہر شے پر اللہ کے اقتدار اعلیٰ کے مصادیق کا ذکر ہے۔

۱۔ الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ: وہ ذات جس نے موت کو خلق کیا۔ موت، عدم حیات کا نام ہے اور عدم، مخلوق نہیں ہے چونکہ خلق، ایجاد کا نام ہے۔ جب خلق ہوا تو وجود میں آنا چاہیے؟ اس سوال کا حل یہ ہے: موت، عدم حیات کا نام نہیں ہے بلکہ انتقال حیات کا نام ہے۔ چنانچہ مادہ بذات خود حیات کا حامل نہیں ہوتا۔ مادے میں خاص شرائط موجود ہونے کی صورت میں حیات جنم لیتی ہے۔ مثلاً جدید انکشافات کے تحت ڈی این اے کے تین ارب چھوٹے سالموں کے منظم ترتیب میں آنے سے اللہ تعالیٰ اس میں حیات ڈال دیتا ہے اور موت یہ ہے کہ اس منظم ترتیب میں خلل آنے سے اللہ وہاں سے حیات نکال دیتا ہے۔ لہٰذا حیات کا نکال دینا ایک تخلیقی عمل ہے۔

۲۔ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا: تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے احسن عمل کی منزلت پر فائز ہونے والا کون ہے۔ غرض تخلیق نیک عمل ہے۔ آزمائش اسے معرض وجود میں لانے کا ذریعہ ہے۔ جو ہستی حسن عمل کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہو وہی غرض تخلیق میں بھی اعلیٰ ترین مقام کی حامل ہو گی۔ اگر یہ نکتہ آپ کی سمجھ میں آ جائے تو آپ یہ فرمان بآسانی سمجھ لیں گے:

لو لاک ما خلقت الأفلاک۔۔۔۔ (بحار ۱۵: ۲۷)

یعنی (اے محمد! اے مجسمۂ احسن عمل!) اگر تو نہ ہوتا تو میں اس کائنات کو خلق نہ کرتا۔


آیت 2