آیت 7
 

لِیُنۡفِقۡ ذُوۡ سَعَۃٍ مِّنۡ سَعَتِہٖ ؕ وَ مَنۡ قُدِرَ عَلَیۡہِ رِزۡقُہٗ فَلۡیُنۡفِقۡ مِمَّاۤ اٰتٰىہُ اللّٰہُ ؕ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىہَا ؕ سَیَجۡعَلُ اللّٰہُ بَعۡدَ عُسۡرٍ یُّسۡرًا ٪﴿۷﴾

۷۔ وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے اور جس پر اس کے رزق میں تنگی کی گئی ہو اسے چاہیے کہ جتنا اللہ نے اسے دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرے، اللہ کسی کو اس سے زیادہ مکلف نہیں بناتا جتنا اسے دیا ہے، تنگدستی کے بعد عنقریب اللہ آسانی پیدا کر دے گا۔

تفسیر آیات

۱۔ لِیُنۡفِقۡ ذُوۡ سَعَۃٍ: مالدار اور غریب میں سے ہر ایک اپنی اپنی گنجائش کے مطابق خرچ کریں۔ ہر ایک پر اپنی مالی استطاعت کے مطابق ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یہ حکم دودھ پلانے والی ماں کے مصارف کے بارے میں تو یقینا ہے لیکن کیا یہی حکم عدت کے دنوں کا بھی ہے؟ اس میں دو رائے ہیں۔

۲۔ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىہَا: اللہ انسانوں پر طاقت و امکان سے زیادہ تکلیف عائد نہیں فرماتا۔ یہ بات تمام عقلاء کے نزدیک بھی قابل قبول نہیں ہے کہ جو انسان کے بس میں نہ ہو اسے انجام دینے کا حکم دیا جائے اور نہ کرنے پر اس سے مواخذہ کیا جائے کہ جو کام تم نہیں کر سکتے تھے اسے کیوں نہیں کیا؟

حدیث نبوی ہے:

وُضِعَ عَنْ اُمَّتِی تِسْعَۃُ اَشْیَائَ السَّہْوُ الْخَطَأُ وَالنِّسْیَانُ وَ مَا اُکْرِھُوا عَلَیْہِ وَ مَا لَا یَعْلَمُونَ وَ مَا لَا یُطِیقُونَ وَ الطِّیَرَۃُ وَ الْحَسَدُ وَ التَّفَکُّرُ فِی الْوَسْوَسَۃِ فِی الْخَلْقِ مَا لَمْ یَنْطِقِ الْاِنْسَانُ بِشَفَۃٍ۔ (الفقیہ۱: ۵۹)

میری امت سے نو چیزوں کی ذمے داری اٹھا لی گئی ہے۔ سہو خطا اور بھول چوک، جس پر مجبور کیا گیا ہے، جو چیز وہ (بغیر کوتاہی کے) نہیں جانتے ہیں، جو بات طاقت سے باہر ہے، بدشگونی، حسد اور خلق خدا کے بارے میں وسوسہ جب تک منہ پر نہ لائے۔

۳۔ سَیَجۡعَلُ اللّٰہُ بَعۡدَ عُسۡرٍ یُّسۡرًا: اگر احکام قرآن کی پابندی کی جائے تو اللہ تنگدستی کے بعد کشائش فراہم فرمائے گا۔ اس میں تنگدست لوگوں کے لیے ایک تسلی ہے کہ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔


آیت 7