آیت 6
 

اَسۡکِنُوۡہُنَّ مِنۡ حَیۡثُ سَکَنۡتُمۡ مِّنۡ وُّجۡدِکُمۡ وَ لَا تُضَآرُّوۡہُنَّ لِتُضَیِّقُوۡا عَلَیۡہِنَّ ؕ وَ اِنۡ کُنَّ اُولَاتِ حَمۡلٍ فَاَنۡفِقُوۡا عَلَیۡہِنَّ حَتّٰی یَضَعۡنَ حَمۡلَہُنَّ ۚ فَاِنۡ اَرۡضَعۡنَ لَکُمۡ فَاٰتُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ ۚ وَ اۡتَمِرُوۡا بَیۡنَکُمۡ بِمَعۡرُوۡفٍ ۚ وَ اِنۡ تَعَاسَرۡتُمۡ فَسَتُرۡضِعُ لَہٗۤ اُخۡرٰی ؕ﴿۶﴾

۶۔ ان عورتوں کو (زمانہ عدت میں) بقدر امکان وہاں سکونت دو جہاں تم رہتے ہو اور انہیں تنگ کرنے کے لیے تکلیف نہ پہنچاؤ، اگر وہ حاملہ ہوں تو وضع حمل تک انہیں خرچہ دیتے رہو پھر اگر تمہارے کہنے پر وہ دودھ پلائیں تو انہیں (اس کی) اجرت دے دیا کرو اور احسن طریقے سے باہم مشورہ کر لیا کرو اور (اجرت طے کرنے میں) اگر تمہیں آپس میں دشواری پیش آئے تو (ماں کی جگہ) کوئی اور عورت دودھ پلائے گی۔

تفسیر آیات

۱۔ اَسۡکِنُوۡہُنَّ مِنۡ حَیۡثُ سَکَنۡتُمۡ: مطلقہ عورتوں کو عدت کے دنوں میں سکونت کی جگہ اسی سطح کی دو جس میں تم خود رہتے ہو۔ یہ جائز نہیں ہے کہ تم کوٹھی میں رہو اور مطلقہ کو سرونٹ کوارٹر میں رکھو۔ عورت کی عزت و مقام کا بھی خیال رکھو۔

۲۔ مِّنۡ وُّجۡدِکُمۡ: الوجد الوسع والطاقۃ یعنی بقدر امکان۔ مطلقہ عورت کو بقدر امکان سکونت کی جگہ دو جہاں تم رہتے ہو۔ اگر گھر کرایہ کا ہو اور صاحب مکان اس عورت کے رہنے پر راضی نہ ہو تو مِنۡ حَیۡثُ سَکَنۡتُمۡ ’’جہاں تم رہتے ہو۔‘‘ اس کی طاقت نہیں ہے تو کہیں اور ٹھہرائیں گے۔

واضح رہے فقہ جعفری کے مطابق رہائش کا حق اس مطلقہ عورت کو ملے گا جو طلاق رجعی کی عدت میں ہو۔ طلاق بائن والی عورت، جسے مبتوتہ بھی کہتے ہیں کو رہائش کا حق حاصل نہیں ہے۔

۲۔ وَ لَا تُضَآرُّوۡہُنَّ لِتُضَیِّقُوۡا عَلَیۡہِنَّ: طلاق کے بعد نان نفقہ میں کوتاہی کر کے، سکونت کی جگہ غیر مناسب دے کر اور لباس، بستر وغیرہ لوازم زندگی فراہم نہ کر کے عدت میں بیٹھنے والی عورت کو تنگ نہ کرو۔

۳۔ وَ اِنۡ کُنَّ اُولَاتِ حَمۡلٍ: اگر مطلقہ عورت حاملہ ہے تو وضع حمل تک کا نان و نفقہ طلاق دہندہ سابقہ شوہر ادا کرے گا۔ مطلقہ عورت خواہ رجعیہ ہو یا بائنہ، ہر صورت کی طلاق میں بچے کی ولادت تک کا خرچ شوہر پر ہو گا۔

۴۔ فَاِنۡ اَرۡضَعۡنَ لَکُمۡ: عورت کو طلاق مل جاتی ہے۔ طلاق کے بعد بچے کی ولادت ہو جاتی ہے۔ ولادت کے بعد بچے کو دودھ پلانے کا مسئلہ درپیش ہے۔ والدین میں جدائی ہے۔ بچے کا خرچ باپ پر واجب ہے۔

۵۔ فَاٰتُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ: ماں کو دودھ پلانے کی اجرت، باپ سے لینے کا حق حاصل ہے چونکہ دودھ ماں کی ذاتی ملکیت ہے۔

۶۔ وَ اۡتَمِرُوۡا بَیۡنَکُمۡ بِمَعۡرُوۡفٍ: اولاد کو دودھ پلانے اور پرورش کرنے کے بارے میں والدین میں جدائی کی وجہ سے منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ ان سے بچنے کے لیے مطلقہ عورت، اس کے متعلقین اور طلاق دہندہ اور اس کے متعلقین آپس میں صلاح مشورہ کریں تاکہ خوش اسلوبی سے مسائل حل ہو جائیں اور بچے کو ماں کی مامتا سے محروم نہ کیا جائے اور بچے کی ماں کو بھی اپنے حقوق مل جائیں۔

۷۔ وَ اِنۡ تَعَاسَرۡتُمۡ فَسَتُرۡضِعُ لَہٗۤ اُخۡرٰی: عسر و حرج اور غیر معمولی دشواری پیش آنے کی صورت میں دوسری عورت سے دودھ پلوائیں ورنہ ماں کا دودھ ہی ہر ممکن صورت میں شائستہ ہے۔ آپس میں مشورے کا حکم اور عسر و حرج کی شرط بتاتی ہے کہ بچے کے لیے ماں کا دودھ کس قدر ضروری ہے۔


آیت 6