آیت 4
 

وَ الّٰٓیِٴۡ یَئِسۡنَ مِنَ الۡمَحِیۡضِ مِنۡ نِّسَآئِکُمۡ اِنِ ارۡتَبۡتُمۡ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشۡہُرٍ ۙ وَّ الّٰٓیِٴۡ لَمۡ یَحِضۡنَ ؕ وَ اُولَاتُ الۡاَحۡمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنۡ یَّضَعۡنَ حَمۡلَہُنَّ ؕ وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ اَمۡرِہٖ یُسۡرًا﴿۴﴾

۴۔ تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے ناامید ہو گئی ہیں، (ان کے بارے میں) اگر تمہیں شک ہو جائے (کہ خون کا بند ہونا سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے ہے یا کسی اور عارضے کی وجہ سے) تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور یہی حکم ان عورتوں کا ہے جنہیں حیض نہ آتا ہو اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کا وضع حمل ہے اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے معاملے میں آسانی پیدا کر دیتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ الّٰٓیِٴۡ یَئِسۡنَ: یہاں دو عورتوں کی عدت کا حکم بیان ہوا ہے:

الف: وہ عورت جو حیض بند ہونے کی عمر کو پہنچ رہی ہو اور شک ہو کہ حیض کا بند ہونا عمر کی وجہ سے ہے یا کسی عارضہ کی وجہ سے۔ اس صورت میں عدت تین ماہ ہے۔

ب: وہ عورت جو حیض بند ہونے کی عمر کو نہیں پہنچی مگر کسی عارضے کی وجہ سے حیض نہیں آتا، ایسی عورت کی عدت بھی تین ماہ ہے۔ یہاں ماہ سے مراد قمری ماہ ہے۔

اِنِ ارۡتَبۡتُمۡ میں دو احتمالات ہیں: شک اس بات میں ہو کہ بانجھ ہونے کی عمر کو پہنچ گئی ہے لیکن حاملہ ہے یا نہیں؟ بانجھ ہونے کی عمر عام عورتوں کے لیے پچاس سال اور سادات کے لیے ساٹھ سال ہے۔

دوسرا یہ احتمال ہے شک اس بات میں ہو کہ حیض بند ہونے کی عمر کو پہنچ چکی ہے یا نہیں، ہر صورت میں عدت تین ماہ ہے۔

۲۔ وَ اُولَاتُ الۡاَحۡمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنۡ یَّضَعۡنَ حَمۡلَہُنَّ: حاملہ عورتوں کی عدت ان کا وضع حمل یعنی بچے کی پیدائش ہے۔ خواہ طلاق کے ایک گھنٹے کے بعد ولادت ہو جائے، عدت ختم ہو جائے گی اور خواہ طلاق کے نو ماہ بعد بچے کی ولادت ہو تو نو ماہ عدت ہو گی۔

۳۔ وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ اَمۡرِہٖ یُسۡرًا: جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وضع کردہ حدود کی پابندی کرے اس کے لیے اللہ تعالیٰ آسانیاں پیدا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وضع کردہ قوانین تقاضائے فطرت کے عین مطابق ہیں جس سے معاملات سدھارنے میں آسانی پیدا ہو گی۔


آیت 4