آیات 2 - 3
 

فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمۡسِکُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ فَارِقُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ وَّ اَشۡہِدُوۡا ذَوَیۡ عَدۡلٍ مِّنۡکُمۡ وَ اَقِیۡمُوا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہِ ؕ ذٰلِکُمۡ یُوۡعَظُ بِہٖ مَنۡ کَانَ یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ۬ؕ وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا ۙ﴿۲﴾

۲۔ پس جب عورتیں اپنی عدت پوری کرنے کو آئیں تو انہیں اچھی طرح سے (اپنے عقد میں) رکھو یا انہیں اچھے طریقے سے علیحدہ کر دو اور اپنوں میں سے دو صاحبان عدل کو گواہ بناؤ اور اللہ کی خاطر درست گواہی دو، یہ وہ باتیں ہیں جن کی تمہیں نصیحت کی جاتی ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور جو اللہ سے ڈرتا رہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے،

وَّ یَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسۡبُہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمۡرِہٖ ؕ قَدۡ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیۡءٍ قَدۡرًا﴿۳﴾

۳۔ اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ سوچ بھی نہ سکتا ہو اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے پس اس کے لیے اللہ کافی ہے، اللہ اپنا حکم پورا کرنے والا ہے، بتحقیق اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کیا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ: جب عدت پوری ہونے والی ہو تو یہ فیصلہ کر لو کہ عورت کو اپنی زوجیت میں رکھنا ہے یا نہیں۔ جو بھی فیصلہ ہو شائستگی ضروری ہے۔ اگر زوجیت میں رکھنا ہے تو شائستہ طریقہ سے رکھو۔ اذیت دینے کے لیے نہ ہو۔ یعنی رجوع کر کے عدت کے بعد آزاد بھی نہ ہونے دے اور زوجیت کے حقوق بھی ادا نہ کرے۔

۲۔ وَّ اَشۡہِدُوۡا ذَوَیۡ عَدۡلٍ مِّنۡکُمۡ: طلاق کے موقع پر دو عادل افراد کو گواہ بنا لو۔ فقہ اہل بیت % میں طلاق کے مؤثر ہونے کے لیے دو عادل گواہوں کا ہونا لازمی ہے۔ اس پر از روئے نص و فتویٰ اتفاق ہے۔ یعنی نہ روایات میں اختلاف ہے، نہ فتاویٰ میں۔ چنانچہ محمد بن مسلم کی صحیح روایت میں ہے:

طَلَاقُ السُّنَّۃِ یُطَلِّقُھَا تَطْلِیقَۃً یَعْنِی عَلَی طُھُرٍ مِنْ غَیْرِ جِمَاعٍ بِشَہَادِۃِ شَاھِدِیْنِ۔ (الکافی ۶: ۶۵)

طلاق سنت یہ ہے کہ ان پاک دنوں میں جن ہمبستری نہ ہوئی ہو، دو گواہوں کے سامنے طلاق دی جائے۔

اس طرح ان دو گواہوں کا عادل ہونا بھی شرط ہے اس پر بھی ائمہ اہل البیت علیہم السلام کی متعدد روایات موجود ہیں۔

مَنْ طَلَّقَ بَغَیْرِ شَہُودٍ فَلَیْسَ بِشَیئٍ۔ ( الکافی ۶: ۶۰۔ الوسائل ۲۲: ۲۷)

کوئی بغیر گواہ کے طلاق دے تو یہ طلاق کچھ بھی نہیں ہے۔

یعنی غیر مؤثر ہے۔

اس پر خرید و فروخت کے بارے میں گواہ رکھنے کے حکم کے ساتھ قیاس نہیں ہو سکتا ہے جہاں گواہ لینے کا حکم ہے۔ گواہ نہ ہونے کی صورت میں بھی بیع صحیح ہو جاتی ہے کیونکہ اول تو بیع معاملہ ہے، یہ معاملہ نہیں ہے۔ ثانیاً بیع میں فرمایا ہے:

وَ اسۡتَشۡہِدُوۡا شَہِیۡدَیۡنِ مِنۡ رِّجَالِکُمۡ۔۔۔ (۲بقرۃ: ۲۸۲)

پھرتم لوگ اپنے میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو۔

استشہاد سے طلب شہادت مراد ہے۔ یعنی قاضی کو حکم ہے اختلاف کی صورت میں دو گواہ طلب کرو۔ یہاں سین استفعال، طلب کے لیے ہے اس پر وَ لَا یَاۡبَ الشُّہَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوۡا قرینہ ہے۔ جب کہ آیت طلاق میں وَّ اَشۡہِدُوۡا گواہ رکھنے اور بنانے کا حکم ہے۔ عند النزاع طلب کا حکم نہیں ہے۔

۳۔ وَ اَقِیۡمُوا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہِ: گواہی دیتے ہوئے اپنی ذاتی خواہشات، رشتہ داری کا لحاظ یا کوئی مفاد سامنے نہ رکھا جائے بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کو سامنے رکھ کر شہادت دینی چاہیے۔

۴۔ ذٰلِکُمۡ یُوۡعَظُ بِہٖ: یہ وعظ ہے جو خود تمہارے مفاد میں ہے۔ اس مفاد کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو ایمان باللہ کے ساتھ آخرت پر بھی ایمان رکھتے ہوں۔ چونکہ ناموس اور نسل انسانی کا مسئلہ ہے اس میں زیادہ احتیاط کرنا لازمی ہے۔

گزشتہ آیات میں جو احکام بتائے ہیں وہ سب اللہ کا اٹل ناقابل تغیر قانون ہے صرف نصیحت نہیں ہے۔ لفظ وعظ بیان احکام کے بعد تنبیہ و تاکید کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے:

وَ یَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡبَغۡیِ ۚ یَعِظُکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ﴿۹۰﴾ (۱۶ نحل: ۹۰)

اور بے حیائی اور برائی اور زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے شاید تم نصیحت قبول کرو۔

اس جگہ وعظ تنبیہ کی جگہ ہے۔ چنانچہ راغب مفردات میں لکھتے ہیں:

الوعظ زجر مقترن بتخویف۔

وعظ ایسی زجر و تنبیہ کو کہتے ہیں جس میں خوف دلانے کی آمیزش ہو۔

اللہ کا وعظ صرف ایک سفارش نہیں ہے جیسا کہ تفہیم القرآن کے مؤلف کو اشتباہ ہوا ہے اور واعظ سے اردو محاورے کا وعظ و نصیحت مراد لیا ہے جس پر عمل کرو تو بہتر ورنہ کوئی حرج نہیں ہے۔

۵۔ وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا: جو تقویٰ اختیار کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنا دے گا۔ یعنی متقی بند گلی میں نہیں پھنسے گا۔ تقویٰ کا دائرہ وسیع ہے لیکن طلاق کے موضوع میں تقویٰ کا یہ حکیمانہ راز بیان کرنے کا مقصد یہی ہو سکتا ہے کہ طلاق میں انسانی قدروں سے کھیلنے کے مواقع زیادہ ہیں۔

اگرچہ تقویٰ کی اس خاصیت کا ذکر طلاق کے موقع پر فرمایا لیکن تقویٰ زندگی کے تمام مراحل اور شعبوں میں یہی اثر رکھتا ہے۔

تقویٰ کی وجہ سے انسان کا ضمیر صاف، احساس زندہ اور عقل بیدار ہوتی ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر تقویٰ انسان کی رہنمائی کرتا ہے کون سا راستہ حق، صحیح اور آسان ہے اور کون سا راستہ باطل، غلط اور مشکل ہے۔ اس طرح متقی دین اور آخرت میں بند گلی میں نہیں پھنستا۔

حدیث میں اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے:

مَخۡرَجًا من شبہات الدنیا ومن غمرات الموت و شدائد یوم القیامۃ۔ (بحار ۶۷: ۲۸۱)

اللہ تقویٰ کی وجہ سے دنیا میں شبہات اور موت کی سختیوں سے اور قیامت کے شدائد سے نکلنے کا راستہ بناتا ہے۔

تقویٰ کے آثار کے بارے میں مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انفال آیت ۲۹۔

۶۔ وَّ یَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ: یہ گمان نہ ہو کہ تقویٰ اختیار کر کے حرام مال کمانے اور بچانے سے پرہیز کیا جائے اور نان و نفقہ بھی دیا جائے تو کہاں سے کھائیں گے؟ اللہ متقی کو ایسے راستے سے رزق عنایت فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو۔

۷۔ وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسۡبُہٗ: ان امور کو اگر متقی اللہ پر چھوڑ دے تو اس کے لیے اللہ کافی ہو گا کسی کے درازے پر جانے کی ضرورت نہ ہو گی۔ اگر انسان ان امورکو اپنے ہاتھ میں لے اور اللہ پر توکل نہ کرے تو ہر دروازے پر جانا پڑے گا پھر بھی اس کی زندگی کے امور حل نہ ہوں گے کیونکہ اللہ کا وضع کردہ نظام علل و اسباب کا نظام ہے۔ یہ علل و اسباب انسان کی دسترس میں اس وقت آتے ہیں جب مسبب الاسباب پر بھروسہ کرے اور اگر انسان اپنی تدبیر پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔

۸۔ اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمۡرِہٖ: اللہ کو اپنا کام پورا کرنے اور اسباب و علل فراہم کرنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی۔ اس کا صرف ارادہ کرنا ہے اور ارادہ نافذ ہو جاتا ہے۔

۹۔ قَدۡ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیۡءٍ قَدۡرًا: اللہ کا نظام اندھا نظام نہیں ہے۔ ہر چیز کو اس کے مقرر کردہ قانون میں رہنا ہے۔ اسی حکیمانہ نظام میں تقویٰ کا اثر بھی ایک دقیق قانون کے تحت ہے۔


آیات 2 - 3