آیت 9
 

یَوۡمَ یَجۡمَعُکُمۡ لِیَوۡمِ الۡجَمۡعِ ذٰلِکَ یَوۡمُ التَّغَابُنِ ؕ وَ مَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ وَ یَعۡمَلۡ صَالِحًا یُّکَفِّرۡ عَنۡہُ سَیِّاٰتِہٖ وَ یُدۡخِلۡہُ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ﴿۹﴾

۹۔ جس روز اللہ اجتماع کے دن تمہیں اکٹھا کر دے گا تو وہ فائدے خسارے کا دن ہو گا اور جو شخص اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل انجام دے اللہ اس کے گناہوں کو اس سے دور کر دے گا اور اسے ایسی جنتوں میں داخل کر دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، ان میں وہ ابد تک رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ یَوۡمَ یَجۡمَعُکُمۡ لِیَوۡمِ الۡجَمۡعِ: اجتماع کا دن یوم قیامت ہے جس میں تمام اولین و آخرین محشر کے میدان میں جمع ہوں گے۔

۲۔ ذٰلِکَ یَوۡمُ التَّغَابُنِ: یہ یوم فائدہ اٹھانے والوں کے لیے فائدہ اٹھانے اور خسارہ اٹھانے والوں کے لیے خسارے کا دن ہو گا۔ التَّغَابُنِ غبن کا مفاعلہ ہے شر لے کر خیر چھوڑنے والا۔ مغبون ’’خسارہ اٹھانے والا‘‘ ہے اور خیر لے کر شر چھوڑنا، غابن ، ’’خسارے میں ڈالنے والا‘‘ ہے۔ اس کے بعد آیات میں اس تغابن یعنی ہار جیت کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔

اس تفسیر کی تائید میں یہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

ما من عبد مومن یدخل الجنۃ الا اری مقعدہ فی النار لو اساء لیزداد شکراً، وما من عبد یدخل النار الا اری مقعدہ من الجنۃ لو احسن لیزداد حسرۃ۔۔۔۔ (مجمع البیان ذیل آیت)

کوئی بندہ مومن ایسا نہ ہو گا جو جنت میں داخل ہو گا مگر اسے جہنم میں وہ جگہ نہ دکھائی جائے جس میں اس نے جانا تھا اگر برا کام کرتا تاکہ اس کے شکر میں اضافہ ہو اور کوئی بندہ جہنم میں داخل نہ ہو گا جب تک جنت میں اس کی جگہ نہ دکھا دی جائے اگر اچھا کام کرتا تاکہ اس کی حسرت میں اضافہ ہو۔

۳۔ وَ مَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ: اس تغابن میں فائدہ اٹھانے والا وہ شخص ہو گا جو ایمان کے ساتھ عمل صالح بجا لائے۔ اس کے دو نتائج سامنے آئیں گے:

۴۔ یُّکَفِّرۡ عَنۡہُ سَیِّاٰتِہٖ: ایک تو یہ ہے کہ اگر اس کی گردن پر گناہوں کا بوجھ ہو گا تو ایمان اور عمل صالح اس کے گناہوں کا کفارہ ہو گا اور گناہ مٹ جائیں گے۔

۵۔ وَ یُدۡخِلۡہُ جَنّٰتٍ: دوسرا یہ ہو گا کہ گناہ دھل جانے کی وجہ سے اب وہ جنت میں داخل ہونے کا اہل ہو جائے گا اور جنت میں داخل ہو گا۔

۶۔ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا: جس میں اہل جنت ہمیشہ رہیں گے۔ اَبَدًا تاکیدہے خٰلِدِیۡنَ کی۔ چنانچہ خلود بھی ہمیشہ رہنے کو کہتے ہیں۔ یعنی یہاں نہ ختم ہونے والی زندگی ملے گی۔

۷۔ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ: جو شخص اپنی ختم نہ ہونے والی ابدی زندگی سنوارنے میں کامیاب ہو جائے، اس سے زیادہ عظیم کامیابی کیا ہو سکتی ہے۔


آیت 9