آیت 7
 

زَعَمَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ لَّنۡ یُّبۡعَثُوۡا ؕ قُلۡ بَلٰی وَ رَبِّیۡ لَتُبۡعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلۡتُمۡ ؕ وَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ﴿۷﴾

۷۔ کفار کو یہ گمان ہے کہ وہ ہر گز(دوبارہ) اٹھائے نہیں جائیں گے، کہدیجئے: ہاں! میرے رب کی قسم! تم ضرور اٹھائے جاؤ گے پھر تمہیں (اس کے بارے میں) ضرور بتایا جائے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو اور یہ بات اللہ کے لیے نہایت آسان ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ زَعَمَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا: اس کائنات میں موجود شواہد اور انبیاء علیہم السلام کی طرف سے قائم کردہ دلائل کے باوجود یہ کافر لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں: اَنۡ لَّنۡ یُّبۡعَثُوۡا ہو ہی نہیں سکتا دوبارہ اٹھائے جائیں۔

۲۔ قُلۡ بَلٰی وَ رَبِّیۡ: آپ ان کے جواب میں کہ دیں: میرے پروردگار کی قسم! تمہارے انکار سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تمہیں ہر صورت میں اٹھایا جائے گا اور تمہیں تمہارے اعمال کا نتیجہ سنایا جائے گا۔ اگر ان اعمال کا کوئی نتیجہ نہ ہو تو یہ کائنات ایک عبث، بے مقصد کھیل ثابت ہو گی۔

۳۔ وَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ: جو ذات تمہیں عدم سے وجود میں لائی اور تمہیں خاک سے اٹھایا ہے اسے تمہیں دوبارہ خاک سے اٹھانے میں کوئی دشواری نہ ہو گی۔ جس ذات کا صرف ارادہ نافذ ہو اس کے لیے کوئی کام مشکل نہیں ہوا کرتا۔

ہمارے لیے مشکل اور آسان کا تصور اس لیے ہے کہ ہم اسباب و علل کے ذریعے کسی کام پر قادر ہوتے ہیں۔ اسباب و علل کم ہوں تو آسان، زیادہ ہوں تو مشکل ہوتا ہے۔ اللہ کے لیے ایسا نہیں ہے۔ اس کا صرف ایک ارادہ کافی ہوتا ہے۔


آیت 7