آیت 10
 

وَ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا وَ لِاِخۡوَانِنَا الَّذِیۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِیۡمَانِ وَ لَا تَجۡعَلۡ فِیۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّکَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ﴿٪۱۰﴾

۱۰۔ اور جو ان کے بعد آئے ہیں، کہتے ہیں: ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے لیے کوئی عداوت نہ رکھ، ہمارے رب! تو یقینا بڑا مہربان، رحم کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ: الَّذِیۡنَ مبتدا اور یَقُوۡلُوۡنَ خبر ہے۔ یہ ایک مستقل جملہ ہے۔ یہ آیت اور سابقہ آیت دونوں لِلۡفُقَرَآءِ الۡمُہٰجِرِیۡنَ پر عطف نہیں ہیں جیسا کہ اکثر نے کہا ہے۔ چنانچہ عمل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس پر شاہد ہے کہ آپ نے انصار کو بہ حیثیت انصار حصہ نہیں دیا۔ البتہ ان میں سے تین افراد کو بہ حیثیت محتاج اور مسکین سہم سبیل اللّٰہ سے عنایت فرمایا۔

۲۔ یَقُوۡلُوۡنَ: مہاجرین و انصار کے بعد آنے والے مسلمان اپنے مومن اسلاف کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو ایمان میں سبقت لے جانے والے ہیں۔ سابق فی الایمان ہونا اپنی جگہ ایک فضیلت ہے اور ساتھ آنے والی نسلوں تک ایمان پہنچانے کا بھی یہی لوگ ذریعہ بن گئے ہیں۔

ابن عباس سے روایت ہے: سَبَقُوۡنَا بِالۡاِیۡمَانِ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت جعفر طیارؓ کی شان میں ہے۔ ملاحظہ ہو شواہد التنزیل ذیل آیت۔ کشف الغمۃ ۱: ۳۱۷

۳۔ وَ لَا تَجۡعَلۡ فِیۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا: ہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے لیے کوئی عداوت نہ رکھ۔ اگر کوئی کسی مومن سے اس لیے عداوت رکھے کہ وہ مومن ہے تو یہ کفر ہے اور اگر کسی اور وجہ سے اس سے عداوت رکھتا ہے، وہ اگر الحب فی اللّٰہ و البغض فی اللّٰہ کے تحت ہے تو نہ صرف اس کی مذمت نہیں ہے بلکہ حدیث میں ہے:

اَوْثَقُ عُرَی الْاِیْمَانِ الْحَبُّ فِی اللّٰہِ وَ الْبُغْضُ فِی اللّٰہِ۔۔۔۔ ( الکافی ۲: ۱۲۵)

ایمان کی مضبوط ترین رسی برائے خدا محبت اور برائے خدا عداوت کرنا ہے۔

مثلاً کسی کلمہ گو مسلمان سے اس لیے عداوت رکھی جائے کہ وہ ظالم ہے تو یہ بھی حکم خدا کی تعمیل ہے۔ حدیث میں ہے:

کُونَا لِلظَّالِمِ خَصْماً وَ لِلْمَظْلُومِ عَوْناً۔۔۔۔ ( نہج البلاغۃ وصیت ۴۷)

(اے حسن و حسین) ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار بنے رہنا۔

اور اگر مومن سے بلاوجہ عداوت رکھے تو یہ فسق ہے۔ اگر کسی مومن سے اس بنا پر عداوت رکھے کہ اس نے ظلم کیا ہے اور حقیقت میں وہ ظالم نہ ہو تو اگر اس کے ظالم ہونے کی کوئی معقول دلیل اس کے پاس ہے تو وہ معذور ہے، جسے اجتہادی غلطی کہتے ہیں لیکن اگر اس کے نزدیک ایسی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ ذاتی خلش کی وجہ سے اس مومن سے عداوت رکھے تو یہ فسق ہے۔

چنانچہ اصحاب ایک دوسرے کے ساتھ عداوت رکھتے تھے۔ ایک دوسرے پر لعنت کرتے اور کبھی ایک دوسرے پر سَبْ بھی کرتے تھے اور مقاتلہ تک نوبت آجاتی:

خالد بن ولید نے عبد الرحمن بن عوف کو گالی دی۔ ( صحیح مسلم ۲: ۳۱۰ طبع دہلی)

حضرت عمر نے سعد بن عبادہ پر لعنت کی۔ ( صحیح بخاری ۲:۱۰۱۰ ط دہلی)

حضرت ابو موسیٰ اشعری نے عمرو بن عاص سے کہا:

تجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔ تیری حالت بالکل اس کتے کی سی ہے جس پر لادو تب بھی ہانپتا ہے اور چھوڑ دو تو بھی ہانپتا ہے۔

تو عمر بن عاص نے کہا:

خدا تجھ پر لعنت کرے۔ تیری مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ ( العقد الفرید ۳؍۳۴۱ طبع دارالاندلس بیروت۔ خلفائے راشدین مؤلف معین الدین ندوی صفحہ ۳۱۰ طبع اعظم گڑھ)

ایک بار تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے ایک دوسرے کو سب و شتم کیا اور ایک دوسرے پر جوتے برسائے۔ ( صحیح بخاری کتاب الصلح۔ صحیح مسلم کتاب الجہاد باب دعاء النبی الی اللہ )


آیت 10