آیت 9
 

وَ الَّذِیۡنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الۡاِیۡمَانَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ یُحِبُّوۡنَ مَنۡ ہَاجَرَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَا یَجِدُوۡنَ فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ حَاجَۃً مِّمَّاۤ اُوۡتُوۡا وَ یُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ وَ لَوۡ کَانَ بِہِمۡ خَصَاصَۃٌ ؕ۟ وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ۚ﴿۹﴾

۹۔ اور جو پہلے سے اس گھر (دارالہجرت یعنی مدینہ) میں مقیم اور ایمان پر قائم تھے، وہ اس سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آیا ہے اور جو کچھ ان (مہاجرین) کو دے دیا گیا اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی خلش نہیں پاتے اور وہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود محتاج ہوں اور جو لوگ اپنے نفس کے بخل سے بچا لیے گئے ہیں پس وہی کامیاب لوگ ہیں۔

تشریح کلمات

خَصَاصَۃٌ:

( خ ص ص ) خصاص البیت اس فقر اور احتیاج کو کہتے ہیں جو ختم نہ ہوئی ہو۔

شُحَّ:

اس بخل کو کہتے ہیں جس میں لالچ بھی ہو۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ الَّذِیۡنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ: اس آیت میں انصار کا ذکر ہے جو مہاجرین کے آنے سے پہلے ایمان پر قائم تھے۔

۲۔ یُحِبُّوۡنَ مَنۡ ہَاجَرَ اِلَیۡہِمۡ: یہ انصار مہاجرین سے محبت کرتے ہیں۔ ان کی مہاجرین سے محبت اس بنیاد پر تھی کہ وہ اپنے دین کی خاطر گھر اور اموال چھوڑ کر مدینہ آئے۔ وَ الَّذِیۡنَ مبتدأ اور یُحِبُّوۡنَ خبر ہے۔ یہ جملہ الۡمُہٰجِرِیۡنَ پر عطف نہیں، مستقل جملہ ہے۔

۳۔ وَ یُؤۡثِرُوۡنَ: انصار کی اہم خدمت یہ تھی کہ وہ جذبہ ایثار سے سرشار تھے۔ مکہ میں گھر بار چھوڑ کر آنے والوں کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں۔ ترجیح بھی ایسے حالات میں جب خود محتاج ہیں اور جس ایثار کی اللہ گواہی دے وہ بہت بڑا ایثار ہے۔

۴۔ وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ: آیت کے اس جملے میں ایک کلیہ بیان فرمایا ہے جو مومن انسان کے لیے نہایت قابل توجہ ہے: وہ یہ ہے کہ انسان بالطبع مفاد پرست ہے اور مال و دولت کی محبت اس کی رگوںمیں رچی بسی ہے:

وَّ تُحِبُّوۡنَ الۡمَالَ حُبًّا جَمًّا ﴿۲۰﴾ (۸۹ فجر: ۲۰)

اور مال کے ساتھ جی بھرکرمحبت کرتے ہو۔

دوسری جگہ فرمایا:

وَ اِنَّہٗ لِحُبِّ الۡخَیۡرِ لَشَدِیۡدٌ ﴿۸﴾ (۱۰۰ عادیات: ۸)

اور وہ مال کی محبت میں سخت ہے۔

حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے:

یَنَامُ الرَّجُلُ عَلَی الثُّکْلِ وَ لَا یَنَامُ عَلَی الْحَرَبِ۔ ( نہج البلاغۃ حکمت: ۳۰۷)

اولاد کے مرنے پر آدمی کو نیند آ جاتی ہے مگر مال کے چھن جانے پر اسے نیند نہیں آتی۔

اس طبیعت سے ہاتھ اٹھانا بہت دشوار ہے۔ لہٰذا اس سے ہاتھ اٹھانے کا ثواب باقی نیکیوں سے زیادہ ہے۔ باقی نیکیوں کا دس گنا ثواب ہے لیکن مال سے ہاتھ اٹھا کر انفاق کرنے پر کم از کم سات سو، اس سے زیادہ چودہ سو یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے جیسا کہ آیہ میں فرمایا:

مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۲۶۱)

جو لوگ اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں ان(کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس کی سات بالیاں اگ آئیں جن میں سے ہر بالی کے اندر سو دانے ہوں اور اللہ جس (کے عمل) کو چاہتا ہے دگنا کر دیتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے:

ثَلَاثٌ مُہْلَکَاتٌ شُحُّ مُطَاعٌ وَھَوًی مُتَّبَعٌ وَ اِعْجَابُ الْمَرْئِ بِنَفْسِہِ۔ ( الوسائل ۱: ۱۰۲)

تین باتیں مہلک ثابت ہوتی ہیں۔ وہ بخل جس پر عمل کیا جائے۔ وہ خواہشات جس کی پیروی کی جائے اور خود پسندی ہیں۔

حدیث میں آیا ہے:

لا یجتمع الشح والایمان فی قلب رجل مسلم۔ ( مجمع البیان ذیل آیۃ)

بخل اور ایمان ایک مسلم شخص کے دل میں جمع نہیں ہوتے۔

جمیل حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ؑنے فرمایا:

اللہ مومن کو جو خصوصیت عنایت فرماتا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ مومن کو اپنے برادر ایمانی سے نیکی کرنے کی معرفت عنایت فرماتا ہے۔ خواہ وہ تھوڑی ہی کیوں نہ ہو۔ نیکی کے لیے کثرت لازم نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ یُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ وَ لَوۡ کَانَ بِہِمۡ خَصَاصَۃٌ پھر فرمایا: وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ جب اللہ اس بات کی معرفت عنایت فرماتا ہے تو اللہ اس سے محبت کرتا ہے اور جس سے اللہ محبت کرے قیامت کے دن اسے بے حساب اجر عنایت فرمائے گا۔ پھر فرمایا: اے جمیل! اس حدیث کو اپنے برادران ایمانی سے بیان کرو۔ اس میں نیکی کی ترغیب ہے۔ ( الکافی ۲: ۲۰۶)

اس بات کے تحت اس میں فرمایا: جو اپنے نفس میں موجود اس بری خصلت یعنی بخل سے بچا لیا گیا تو درجات اور رضائے الٰہی کے حصول میں کامیابی ہو گی۔

ابوہریرہ سے روایت ہے:

ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں آیا اور بھوک کی شکایت کی۔ رسول اللہؐ نے ازواج کے گھروں کی طرف روانہ کیا۔ ازواج نے بھی جواب دیا: ہمارے ہاں پانی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اسے آج رات کاکھانا کون کھلائے گا؟

حضرت علی (علیہ السلام) نے عرض کی: میں کھلاؤں گا۔ حضرت علی (علیہ السلام) نے حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) سے پوچھا تو فرمایا: صرف بچوں کا کھانا ہے، مگر ہم مہمان کو ترجیح دیں گے۔ حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا: بچوں کو سلا دیں۔ میں چراغ بجھا دیتا ہوں۔ میں نے ایسے ہی کیا۔ چنانچہ اس رات کی صبح یہ آیت نازل ہوئی:

وَ یُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ وَ لَوۡ کَانَ بِہِمۡ خَصَاصَۃٌ۔۔۔۔

اور وہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود محتاج ہوں۔

حضرت ابن عباس سے بھی روایت ہے کہ یہ آیت علی، فاطمہ اور حسن و حسین (علیہم السلام) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

اس آیت کے ایک انصار کے بارے میں نازل ہونے کی بھی روایت ہے اور یہ روایت بھی ابوہریرہ سے ہے۔ ممکن ہے سبب نزول انصار ہو اور اہل بیت کے بھی ایسے ہی ایثار پر آیت کی تطبیق کی گئی ہو۔ چونکہ یہ ایک مسلمہ ہے آیت سبب نزول پر منحصر نہیں ہوتی۔


آیت 9