آیت 7
 

مَاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ مِنۡ اَہۡلِ الۡقُرٰی فَلِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ وَ لِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ کَیۡ لَا یَکُوۡنَ دُوۡلَۃًۢ بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ مِنۡکُمۡ ؕ وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ۘ﴿۷﴾

۷۔ اللہ نے ان بستی والوں کے مال سے جو کچھ بھی اپنے رسول کی آمدنی قرار دیا ہے وہ اللہ اور رسول اور قریب ترین رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ مال تمہارے دولت مندوں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے اور رسول جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ اور اللہ کا خوف کرو، اللہ یقینا شدید عذاب دینے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱س آیت کو بعض مفسرین نے سابقہ آیت کے اجمال کی تفصیل قرار دیا ہے۔ یعنی سابقہ آیت میں مذکور فیٔ کے مصارف کا ذکر قرار دیا ہے۔ اس صورت میں ایک سوال پیش آتا ہے: پہلی آیت کی روشنی میں فیٔ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خصوصی ملکیت ہے جب کہ دوسری آیت بتاتی ہے کہفیٔ خمس کی طرح تقسیم ہو گا۔ یہ دونوں باتیں کس طرح قابل جمع ہیں؟

اس کے متعدد جوابات دیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ دوسری آیت کا تعلق کسی خاص فیٔ سے متعلق ہے جس میں تقسیم ہونا لازمی ہے۔ دوسرا یہ جواب دیا گیا ہے کہ دوسری آیت ناسخ ہے۔ تیسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ تقسیم ضروری نہیں ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے تفضل ہے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے: الجمع بین الآیتین و حکمھما فی غایۃ الاشکال ۔ ان دو آیتوں کو جمع کرنا اور حکم نکالنا انتہائی مشکل ہے۔

اس جگہ سب سے بہتر جواب حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ خوئی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ جو فرماتے ہیں:

پہلی آیت کا موضوع بلاقتال حاصل شدہ مال ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خصوصی ملکیت ہے۔ آیت کا ظہور بھی اسی میں ہے۔ اگر ظہور نہ بھی ہو اور آیت میں مصرف کا تعین نہیں ہے تو بھی روایات کی صراحت سے ان دونوں یعنی ظہور اور مصرف کا تعین ہو جاتا ہے۔

دوسری آیت کا موضوع قتال سے حاصل شدہ مال ہے۔ اس پر قرینہ یہ ہے کہ یہ آیت سابقہ آیت کے مقابلے میں ہے۔ اس موقف پر آنے والا یہ سوال کہ اگر اس آیت کا تعلق قتال سے حاصل شدہ مال ہے تو اس میں مسلمانوں کی غنیمت میں سے رسول کا حصہ کتنا ہو گا، اس کا ذکر نہیں ہے۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حصے کا ذکر آیہ خمس میں ہو گیا ہے۔ چنانچہ محمد بن مسلم کی صحیح روایت سے بھی دوسری آیت کا موضوع واضح ہو جاتا ہے۔ ( المستند فی شرح عروۃ الوثقی ۲: ۳۵۲)

ابن جریر طبری نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔ چنانچہ وہ اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:

میرے نزدیک صائب رائے یہ ہے کہ اس آیت کا حکم سابقہ آیت کے حکم سے مختلف ہے۔ سابقہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس مال کو صرف رسول اللہ سے مخصوص فرمایا، کسی اور کے لیے کوئی حصہ نہیں رکھا۔

امام محمد باقر علیہ السلام سے محمد بن مسلم نے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا:

وَ الْاَنْفَالُ مَا کَانَ مِنْ اَرْضٍ لَمْ یَکُنْ فِیھَا ھِرَاقَۃُ الدِّمَائِ وَ قَوْمٍ صُالِحُوا وَ اَعْطَوا بِاَیْدِیہِمْ وَ مَا کَانَ مِنْ اَرْضٍ خَرِبَۃٍ اَوْ بُطُونِ اَوْدِیَۃٍ فَھُوَ کُلُّہُ مِنَ الْفِیْئِ فَھَذَا لِلّٰہِ وَ لِرَسُولِہِ ص فَمَا کَانَ لِلّٰہِ فَھُوَ لِرَسُولِہِ ص یَضَعُہُ حَیْثُ شَائَ وَ ھُوَ لِلْاِمَامِ ع بَعْدَ الرَّسُولِ ص وَ قولہ: وَمَآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلٰي رَسُوْلِہٖ مِنْہُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْہِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ قَالَ اَلَا تَرَی ہُوَ ہَذَا وَ اَمَّا قَوْلُہُ مَآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلٰي رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرٰى فَھَذَا بِمَنْزِلَۃِ الْمَغْنَمِ کَانَ اَبِی یَقُولُ ذَلِکَ وَ لَیْسَ لَنَا فِیہِ غَیْرُ سَہْمَیْنِ سَہْمِ الرَّسُولِ وَ سَہْمِ الْقُرْبَی، ثُمَّ نَحْنُ شُرَکَائُ النَّاسِ فِیمَا بَقِیَ۔ (تہذیب الاحکام ۴:۱۳۴ باب الانفال)

انفال وہ مال ہے جو بغیر خون ریزی کے حاصل ہوا اور اس قوم کا مال بھی انفال ہے جو مصالحت کے ذریعے اپنے ہاتھ سے دیا ہو اور غیر آباد زمین اور وادیوں کی غیر آباد زمینیں سب فیء میں سے ہیں، یہ سب اللہ اور رسول کا ہے اور جو اللہ کا ہے وہ رسول کا ہے۔ جسے وہ جہاں چاہے خرچ کر سکتے ہیں اور رسول (ص) کے بعد یہ مال امام (ع) کا ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول: ’’اور ان کے جس مال (غنیمت) کو اللہ نے اپنے رسول کی آمدنی قرار دیا ہے (اس میں تمہارا کوئی حق نہیں) کیونکہ اس کے لیے نہ تو تم نے گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول: ’’اللہ نے ان بستی والوں کے مال سے جو کچھ بھی اپنے رسول کی آمدنی قرار دیا ہے۔‘‘ غنیمت کی جگہ کا ذکر ہے: میرے والد اسی طرح فرماتے تھے۔ اس غنیمت میں ہمارے لیے صرف دو حصے ہیں۔ رسول کا حصہ اور القربی کا حصہ، پھر باقی میں ہم لوگوں کے ساتھ بھی شریک ہیں۔

ایک جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں آیات کا تعلق ایک ہی موضوع سے ہے اور دونوں کا حکم ایک ہے۔ یعنی رسول کی ملکیت ہے۔ دوسری آیت مین جس تقسیم کا ذکر ہے وہ رسول کی ملکیت کی تقسیم کا ذکر ہے۔ یعنی رسول اپنے مال کو اپنی ضرورت پر خرچ کریں گے اور اپنے اہل بیت کے مذکورہ اصناف یعنی یتیم، مساکین اور ابن سبیل پر خرچ کریں گے۔

چنانچہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی روایت ہے جس میں راوی نے امام علیہ السلام سے وَ لِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ کے بارے میں پوچھا تو امام (ع) نے فرمایا:

ھم قربانا و مساکیننا و ابناء سبیلنا۔ ( مجمع البیان )

اس سے مراد ہمارے قریبی، ہمارے مساکین اور ہمارے مسافر ہیں۔

طبری نے اپنی تفسیر جامع البیان میں اور ابوحیان اندلسی نے اپنی تفسیر البحر المحیط میں لکھا ہے:

قال علی بن ابی طالب الیتامی و المساکین ایتامنا و مساکیننا۔ (بحوالہ علی فی القرآن و السنۃ ۲: ۴۰۱)

حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نے فرمایا: یتیموں اور مسکینوں سے مراد ہمارے یتیم اور ہمارے مسکین ہیں۔

۲۔ فَلِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ: ان جنگی غنائم کے مصارف کا ذکر ہے۔ ہم نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ سابقہ آیت کا تعلق فیء سے ہے اور اس آیت کا تعلق غنیمت سے۔ اگرچہ غنیمت کو بھی فیء کہا گیا ہے تاہم ایک فیء وہ ہے جو قتال کے بغیر ہاتھ آیا ہے ۔یہ خالصتاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ملکیت ہے اور ان کے بعد امام (ع) کی ملکیت ہے۔ یہ مال تقسیم نہ ہو گا اور جو مال قتال کے ذریعے حاصل ہوا ہے وہ غنیمت ہے۔ اسے تقسیم کیا جائے گا جو اس طرح ہو گی:

پہلا حصہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہے۔ سابقہ مذکورہ حدیث صحیح میں امام (ع) نے فرمایا:

فما کان للّٰہ فھو لرسولہ۔

جو حصہ اللہ کا ہے وہ بھی رسول کا ہے۔

لہٰذا سہم اللہ اور سہم الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مصرف ایک ہے۔ دونوں رسول کی ملکیت ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی حیات میں اس حصے کو اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اخراجات پر خرچ فرماتے تھے۔

الواحدی نے کہا ہے:

رسول اللہ کے زمانے میں فیء کے پانچ حصے کیے جاتے تھے۔ ان میں سے چار حصے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے خالص تھے باقی پانچواں حصہ پانچ حصوں میں تقسیم ہوتا تھا۔ ان میں سے ایک حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے تھا۔ باقی چار حصے قربی، یتامی، مساکین اور مسافروں کے لیے۔ ( تفسیر کبیر فخر رازی ۲۹: ۵۰۷ ذیل آیت)

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:

کَانَ اَبِی یَقُولُ لَنَا سَہْمُ الرَّسُولِ وَ سَہْمُ ذِی الْقُرْبَی وَ نَحْنُ شُرَکَائُ النَّاسِ فِیمَا بَقِیَ۔ ( الوسائل ۱۵: ۱۱۴)

میرے والد فرماتے تھے: سہم رسول اور سہم ذی القربی ہمارا حق ہے اور باقی میں بھی ہم لوگوں کے ساتھ شریک ہیں۔

لہٰذا شیعہ امامیہ کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حصہ ان کے بعد امام علیہ السلام کی ملکیت ہے۔ دیگر فقہی مسالک میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حصہ مصالح مسلمین کے لیے ہے۔ سرحدوں کی حفاظت، نہروں اور پلوں کی تعمیر میں خرچ کیا جائے گا۔

امام شافعی سے یہ رائے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات خاص کے لیے جو حصہ تھا دہ آپ کے بعدآپ کے خلیفہ کے لیے ہے کیونکہ آپ اس کے مستحق اپنے منصب امامت کی بنا پر تھے۔نہ کہ منصب رسالت کی بنا پر۔ مگر فقہائے شافعیہ کی اکثریت کا قول اس معاملے میں وہی ہے جو جمہور کا قول ہے کہ یہ حصہ اب مسلمانوں کے دینی و اجتماعی مصالح کے لیے ہے کسی شخص خاص کے لیے نہیں ہے۔ دوسرا حصہ رشتہ داروں کا ہے ان سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کے رشتہ دار ہیں۔ یعنی بنی ہاشم اور بنی المطلب۔ یہ حصہ اس لیے مقرر کیا گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ان رشتہ داروں کے حقوق بھی ادا کر سکیں جو آپ کی مدد کے محتاج ہو یا آپ جن کی مدد کرنے کی ضرورت محسوس فرمائیں۔ حضورؐ کی وفات کے بعد یہ بھی ایک الگ اور مستقل حصہ کی حیثیت سے باقی نہیں رہا بلکہ مسلمانوں کے دوسرے مساکین، یتامی اور مسافروں کے ساتھ بنی ہاشم اور بنی المطلب کے محتاج لوگوں کے حقوق بھی بیت المال کے ذمہ عائد ہو گئے۔

۔۔۔۔ عطا بن سائب کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنے عہد میں حضورؐ کا حصہ اور رشتہ داروں کا حصہ بنی ہاشم کو بھیجنا شروع کر دیا تھا۔ ( تفہیم القرآن ۵: ۳۹۱۔ ۳۹۲)

سہم ذوی القربی کو ختم کرنے کے بعد اہل بیت علیہم السلام کو خمس سے محروم کر دیا گیا۔ زکوٰۃ ان کے لیے پہلے حرام تھی۔ اس طرح اہل بیت کے خلاف ایک منظم سازش جاری رہی۔

۳۔ کَیۡ لَا یَکُوۡنَ دُوۡلَۃًۢ بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ مِنۡکُمۡ: کسی معاشرے میں اقتصادی عدالت کا دارمدار تقسیم دولت کے اصول کے عادلانہ ہونے پر ہے۔ اسلام میں تقسیم دولت دو اصولوں پر قائم ہے: محنت اور ضرورت۔ تقسیم دولت میں پہلی اہمیت محنت کو حاصل ہے چونکہ محنت ہی مالکیت کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اس کے بعد احتیاج اور ضرورت بنیاد ہے۔

ہر معاشرے میں لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں: پہلا گروہ اپنی مہارت اور ذہانت کی بنیاد پر اپنی ضرورت سے زیادہ کماتا ہے۔ دوسرا گروہ اپنی ضروت کے مطابق یا اس سے کم کماتا ہے، تیسرا گروہ کمانے کے قابل نہیں ہوتا۔

تقسیم دولت میں پہلا گروہ اپنی محنت و مہارت کی بنیاد پر دولت اور مال کا مالک بن جاتا ہے اور تیسرا گروہ حاجت مندی اور ضرورت کی بنیاد پر مالک بن سکتا ہے جب کہ دوسرے گروہ میں دونوں باتیں جمع ہو سکتی ہیں۔ محنت اور ضرورت دونوں بنیادوں پر یہ مالک بن سکتا ہے۔

یہ آیہ شریفہ تقسیم دولت میں احتیاج اور ضرورت کو بنیاد بنانے کی ضرورت پر زور دیتی ہے کہ اگر تقسیم دولت میں احتیاج کو بنیاد نہ بنایا جائے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ ملکی دولت امیروں کے ہاتھوںمیں گردش کرے گی۔

چنانچہ خلیفہ اول کے بعد جب تقسیم دولت کی اس بنیاد کو نظر انداز کر کے دیگر ترجیحات کو بنیاد بنایا تو اسلامی معاشرہ طبقاتی معاشرہ بننا شروع ہوا اور چشم فلک نے دیکھ لیا تھوڑے عرصے بعد بااثر اصحاب کے ترکے میں ملنے والے سونے کو کلہاڑیوں سے تقسیم کیا گیا۔

۵۔ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ: رسول سے صادر شدہ احکام کی خلاف ورزی کی صورت میں اللہ کے غضب اور عذاب سے بچو۔ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ایسی خلاف ورزی کرنے والوں پر اللہ کا عذاب بھی شدید ہو گا۔

جاگیر فدک: فدک ایک بستی کا نام ہے جو مدینہ سے دو یا تین دن کے فاصلے پر واقع ہے۔ سنہ سات ہجری تک اس بستی میں یہودی سکونت رکھتے تھے۔ فتح خیبر کے بعد یہودیوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے رعب ڈال دیا چنانچہ یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نصف فدک اور بقولے پورے فدک پر مصالحت کی۔

فدک چونکہ بلا قتال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قبضے میں آیا تھا۔ قرآنی صراحت کے مطابق یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خصوصی ملکیت تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ بستی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو عنایت فرمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے وقت یہ آپ کے قبضے میں تھی۔ چنانچہ نہج البلاغۃ مکتوب ۴۵ کے مطابق حضرت علی علیہ السلام عثمان بن حنیف کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:

بَلَی کَانَتْ فِی اَیْدِینَا فَدَکٌ مِنْ کُلِّ مَا اَظَلَّتْہُ السَّمَآئُ فَشَحَّتْ عَلَیْھَا نُفُوسُ قَوْمٍ وَ سَخَتْ عَنْھَا نُفُوسُ قَوْمٍ آخَرِینَ۔۔۔۔

بے شک اس آسمان کے سایہ تلے لے دے کر ایک فدک ہمارے ہاتھوں میں تھا اس پر بھی کچھ لوگوں کے منہ سے رال ٹپکی اور دوسرے فریق نے اس کے جانے کی پروا نہ کی۔

لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد صاحب صواعق محرقہ کی تصریح کے مطابق حضرت عمر نے فدک چھین لیا۔

بنابروایت، حضرت عمر نے اپنے دور خلافت میں واپس کیا تھا لیکن جب حضرت عثمان خلیفہ ہوئے تو انہوں نے راندۂ رسول مروان بن حکم کی جاگیر میں دے دیا۔

جب حضرت علی علیہ السلام کی خلافت قائم ہوئی تو بنی امیہ کی لوٹی ہوئی دیگر تمام جائدادوں اور اموال کے ساتھ فدک بھی مروان سے لے لیا گیا۔

اس سلسلے میں سب سے بڑی توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنی دور خلافت میں حضرت ابوبکر کی سیرت پر عمل کیا اور فدک اولاد زہراء سلام اللہ علیہا کو واپس نہیں کیا۔ اگر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا دعویٰ درست ہوتا تو حضرت علی علیہ السلام ایسا نہ کرتے حالانکہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملتے کہ آپ علیہ السلام نے حضرت ابوبکر کی سیرت پر عمل کیا ہو۔ جو شواہد ہمارے سامنے ہیں ان کے مطابق آپ علیہ السلام فدک کو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا حق سمجھتے تھے۔ چنانچہ عثمان بن حنیف کے نام آپ علیہ السلام کے خط سے ظاہر ہے۔

اپنی خلافت میں آپ اموال فدک و میراث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صاحب اختیار تھے کہ اہل بیت کے مصارف میں خرچ کریں یا وقف کریں اور صدقات میں شامل کریں۔

معاویہ کے دور میں تو اموال فدک کے ساتھ مزید کھیل کھیلا گیا۔ اسے تین حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصہ مروان بن حکم، ایک حصہ عمر بن عثمان اور ایک حصہ اپنے بیٹے یزید کو دے دیا۔

جب مروان کی اپنی حکومت قائم ہوئی تو پورے پر اسی کا دوبارہ قبضہ ہو گیا۔ جب عمر بن عبدالعزیز بن مروان کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے مدینہ کے اپنے والی کو لکھا: فدک اولاد فاطمہ کو واپس کیا جائے۔ والی نے جواب میں لکھا: اولاد فاطمہ مختلف کنبوں میں پھیلی ہوئی ہے میں کس کس کودے دوں؟ عمر بن عبدالعزیز نے لکھا: اگر میں تجھے لکھوں ایک گائے ذبح کرو تو تو پوچھنے لگے گا: اس کا رنگ کیا ہو؟ میرا خط ملتے ہی اولاد فاطمہ سلام اللہ علیہا میں تقسیم کرو۔ اس پر بنی امیہ کے لوگوں نے صدائے احتجاج بلند کی: تم نے شیخین کی سیرت کو مطعون کیا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز نے کہا: میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ مجھے یاد ہے تم نے بھلا دیا ہے۔ الی آخر ۔

اس کے بعد یزید بن عبدالملک نے اولاد فاطمہ سلام اللہ علیہا سے فدک چھین لیا اور مروان کی اولاد کے قبضے میں چلا گیا۔

جب بنی عباس کی حکومت قائم ہوئی ابوالعباس سفاح نے فدک اولاد فاطمہ کے حوالہ کیا بعد میں ابوجعفر منصور نے پھر چھین لیا۔ بعد میں مہدی منصور نے اولاد فاطمہ کو پھر واپس کر دیا لیکن اس کے بعد موسیٰ بن المھدی نے اپنے قبضے میں لیا۔ اس طرح فدک عباسیوں کے قبضے میں رہا۔

جب مامون کی حکومت قائم ہوئی تو سنہ ۲۱۰ ھ میں اولاد فاطمہ کو واپس کر دیا۔ اس کے بعد متوکل عباسی نے پھر اولاد فاطمہ سے واپس لے لیا اور عبد اللہ بن عمر البازیار کو دے دیا۔

روایت ہے کہ فدک میں گیارہ کھجور کے درخت ایسے بھی تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود اپنے دست مبارک سے لگایا تھا۔ عبد اللہ بن عمر البازیار نے بشران بن امیہ ثقفی نامی شخص کو بھیج کر ان درختوں کو کٹوا دیا۔ یہ شخص جونہی واپس آیا اس پر فالج گرا۔

فدک ایک معمولی جائداد نہ تھی۔ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے حکومت کی تقویت ہوتی تھی۔ چنانچہ ایک روایت کے مطابق حضرت عمر نے یہ کہ کر حضرت ابوبکر کو فدک حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو دینے سے روک دیا کہ اگر فدک حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو دیا گیا تو حکومت اپنے مصارف کہاں سے پورے کرے گی۔ معجم البلدان نے اسے ایک بستی قرار دیا ہے۔ بعض کے مطابق فدک کے نخلستان چھٹی صدی کے کوفہ کے نخلستان کے برابر تھے۔

دراصل اس قسم کی تمام باتوں کے پیچھے اصل مسئلہ بنی ہاشم کے ساتھ دیگر لوگوں کی حسادت ہے۔ عبد اللہ بن زبیر کی مکہ میں جب حکومت قائم ہوئی تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیجنے سے منع کر دیا کہ اس سے بنی ہاشم کی ناک اونچی ہوتی ہے۔ اسی طرح دیگر حکومتوں نے بھی بنی ہاشم کی امتیازی حیثیت ختم کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔

ماہرین نفسیات کے مطابق اگر کوئی شخص کسی پر احسان کرتا ہے تو وہ شخص احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے اور احسان کرنے والے کی بالادستی کا احساس اسے ستاتا ہے اور موقع ملنے پر وہ اس کا انتقام لیتا ہے۔ چنانچہ لوگوں نے اس کا اظہار ان لفظوں میں کیا:

ان قومکم کرھوا ان یجمعوا لکم الخلافۃ والنبوۃ۔ (الکامل ۳: ۲۴)

تمہاری قوم اس بات کو ناپسند کرتی ہے کہ خلافت اور نبوت دونوں تمہارے (بنی ہاشم) لیے جمع ہوں۔

۱۔ چنانچہ ہیئت حاکمہ نے اپنی حکومت قائم ہونے کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا گھر جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کیں:

قالوا ان فیھا فاطمہ قال: وان۔۔۔۔ ( الامامۃ و السیاسۃ )

لوگوں نے کہا: اس گھر میں فاطمہ ہے۔ کہا: ہونے دو۔

اس کا صاف صاف مطلب یہی ہے کہ جس گھر نے انہیں یہاں تک پہنچایا اس کے ساتھ حسادت کی آگ کی سوزش سے وہ بے تاب تھے۔

۲۔ اپنی حکومت میں ان لوگوں نے کسی ہاشمی کو کسی قسم کے منصب پر تعینات نہیں کیا جب کہ بنی امیہ کو کلیدی مناصب پر فائز کرتے رہے۔

اس بات سے کون واقف نہیں ہے کہ بنی ہاشم اور بنی امیہ کے درمیان جاہلیت اور اسلام میں ہمیشہ دشمنی چلتی رہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ہیئت حاکمہ نے بنی امیہ کے حق میں اور بنی ہاشم کے خلاف بنیادی کردار ادا کیا اور بنی امیہ کو اقتدار میں لانے کے لیے فضا سازگار بنائی بلکہ حیات رسول میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کو جو مقام ملتا تھا وہ لوگوں پر گراں گزرتا تھا۔

ہم نے سورہ مجادلہ کی آیت ۱۲۔ ۱۳ کے ذیل وہ واقعات بیان کیے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ سرگوشی کرتے تھے تو یہ بھی دوسروں کو گراں گزرتی تھی۔

اس طرح جب سورہ برأت کی تبلیغ کے لیے حضرت ابوبکر کو واپس بلا کر حضرت علی علیہ السلام کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں کو وحی سنائی کہ مجھے حکم ملا ہے:

لا یبلغہ الا انت او رجل منک۔ (بحار ۲۵: ۱۳۲)

اس سورۃ برائت کی تبلیغ یا تو خود آپ کریں یا وہ شخص جو آپ سے ہو۔

جنگ تبوک پر جاتے ہوئے اپنی جگہ حضرت علی علیہ السلام کو مدینے میں جانشین بنایا تو فرمایا:

لابد ان اقیم او تقیم۔ ( خصائص النسائی : ۷ و مسند احمد بن حنبل ۱: ۲۳۱)

ضروری ہے یا میں خود مدینے میں رہوں یا آپ رہیں۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کو اپنی جگہ رکھتے تھے تو دوسرے لوگوں کو ایسی باتیں گراں گزرتی تھیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی معیت میں احیائے اسلام میں علی علیہ السلام کی قربانیوں سے بعد از رسولؐ بقائے اسلام میں علی علیہ السلام کی قربانیاں شاید کم نہ ہوں۔

بعد از رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زمام حکومت ان لوگوں کے ہاتھ میں آگئی جن کی خدمات علی علیہ السلام کے مقابلے میں عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔ ان لوگوں نے علی اور اولاد فاطمہ کو ہر حیثیت سے محروم رکھا تو علی علیہ السلام نے یہ دیکھ کر صبر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد گرد و پیش کے لوگ اسلام سے منحرف ہو رہے ہیں، اگر دارالحکومت مدینہ میں اختلاف رونما ہوا تو بقائے اسلام کو خطرہ لاحق ہو گا لیکن جب پچیس سال بعد علی علیہ السلام کی حکومت قائم ہوتی ہے تو دوسروں نے ایک دن کے لیے بھی اپوزیشن میں بیٹھنے کے لیے صبر نہیں کیا اور حضرت علی علیہ السلام کے خلاف متعدد محاذوں پر جنگیں لڑیں حتیٰ کہ ام المومنین تک کو گھر کی چاردیواری سے نکالا۔

حضرت آیت اللہ سید محمد باقر الصدر الشہید فرماتے ہیں:

اگر ایثار و قربانی ایک کتاب کی شکل میں ہوتی تو علی علیہ السلام اس کتاب کا تابناک عنوان ہوتے اور رسول اسلام نے جب آسمانی تعلیمات پیش فرمائیں تو اگر اس کی روئے زمین پر کوئی عملی تعبیر ہے تو علی علیہ السلام اس کی زندۂ جاوید تعبیر ہیں۔ ( فدک فی التاریخ ۷۴)

حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے ہیئت حاکمہ سے اپنے حق کے مطالبے کے لیے تین طریقے اختیار فرمائے:

i۔ پہلا قدم یہ اُٹھایا کہ کسی کو خلیفہ کے پاس بھیج کر اپنی میراث کا مطالبہ کیا۔

ii۔ خود بنفس نفیس خلیفہ سے خمس اور فدک میں سے اپنے حق کا مطالبہ فرمایا۔

iii۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے دس دن بعد مسجد میں خطبہ دے کر اپنے حق کا سر عام اعلان کیا۔

iv۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے اس وقت مطالبہ فرمایا جب یہ دونوں آپ سے معذرت کرنے آئے تھے۔ جس میں آپ نے فرمایا: اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حدیث بیان کروں تم اس پر عمل کرو گے؟ دونوں نے کہا: ہاں۔ فرمایا: کیا تم دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے؟

رضا فاطمۃ رضای و سخط فاطمۃ من سخطی و من احب فاطمۃ ابنتی فقد احبنی و من ارضی فاطمۃ فقد ارضانی و من اسخط فاطمۃ فقد اسخطنی۔

فاطمہ کی خوشنودی میری خوشنودی، فاطمہ کی ناراضی میری ناراضی ہے۔ جس نے میری بیٹی فاطمہ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے فاطمہ کو راضی کیا اس نے مجھے راضی کیا، جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا؟

دونوں نے کہا: ہاں! ہم نے رسول اللہ (ص) سے سنا ہے۔

پھر فرمایا:

فانی اشھد اللّٰہ و ملائکتہ انکما اسخطتمانی و ما ارضیتمانی و لئن لقیت النبی لاشکونکما۔ (بحار۲۸: ۳۵۶۔ قال رسول اللّٰہ: ان اللّٰہ یغضب لغضبک و یرضا لرضاک۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: فاطمہ تیری ناراضگی سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔ تیری خوشنودی سے اللہ خوش ہو جاتا ہے نیز فرمایا: فاطمۃ بضعۃ منی یریبنی ما ارابھا و یوذینی ما اذاھا۔ ملاحظہ ہو صحیح بخاری۔ صحیح مسلم۔ جامع الترمذی۔ ابن ماجہ ۔)

میں اللہ اور اللہ کے فرشتوں کو گواہ بناتی ہوں تم دونوں نے مجھے ناراض کیا ہے۔ تم دونوں نے مجھے راضی نہیں کیا ہے۔ جب میں نبیؐ سے ملوں گی تم دونوں کی شکایت کروں گی۔

v۔ انصار و مہاجرین کی خواتین سے خطاب کرتے ہوئے احتجاج فرمایا۔

vi۔ اپنی وصیت کے ذریعے جس میں آپ (س) نے اپنے جنازے میں شرکت سے منع فرمایا۔

رہا یہ سوال کہ حضرت ابوبکر نے ایک حدیث نقل کی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

نحن معاشر الانبیاء لا نورث ما ترکناہ صدقۃ۔

ہم گروہ انبیاء وارث نہیں بناتے جو ہم چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔

اول تو اس حدیث کو صرف حضرت ابوبکر نے روایت کیا ہے۔ ثانیاً یہاں بعد کے واقعات کی روشنی میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا حضرت ابوبکر اس حدیث پر خود ایمان رکھتے تھے؟ کیونکہ

i۔ حضرت ابوبکر نے فدک حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے حوالہ کیا تھا۔ روایت ہے:

حضرت ابوبکر نے فدک حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو لکھ کر دے دیا۔ حضرت عمر کو جب اس کا پتہ چلا تو پوچھا: یہ کیا ہے؟ حضرت ابوبکر نے کہا: یہ تحریر حضرت فاطمہ کے لیے ہے اپنے والد کی میراث کے بارے میں۔ حضرت عمر نے کہا: ماذا تنفق علی المسلمین و قد حاربتک العرب۔ مسلمانوں پر کیا خرچ کرو گے؟ عرب نے تم سے جنگ کر رکھی ہے۔ حضرت عمر نے یہ تحریر پھاڑ دی۔ ( السیرۃ الحلبیۃ ۳: ۳۹۱)

حضرت ابوبکر کا اس حدیث پر ایمان ہوتا تو یہ تحریر نہ لکھتے۔

ii۔ حضرت ابوبکر نے وصیت کی کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ یہ وصیت اس وقت صحیح ہو سکتی ہے جب حدیث نحن معاشر الانبیاء سے گریز کیا ہو اور اپنی بیٹی عائشہ کو وارث تسلیم کیا ہو۔

اگرچہ حضرت عائشہ کو صرف آٹھویں حصے میں سے نواں حصہ ملتا ہے اور خود حضرت عائشہ نے حضرت امام حسن علیہ السلام کو اپنے نانا کے پہلو میں دفن کرنے سے منع کرتے ہوئے کہا:

لا تدفنوا فی بیتی من لا احب۔

میرے گھر میں اسے دفن نہ کرو جسے میں نہیں چاہتی۔

یہ وارث نہیں بن سکتی تھیں تو ’’ بیتی ‘‘ میرا گھر کیسے ہوا۔

iii۔ یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ خلیفہ نے زوجات رسول سے ان کے حجرے نہیں چھینے، نہ ہی ہبہ کا ثبوت مانگا اور آیہ وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ۔۔۔۔ (۳۳ احزاب: ۳۳) ’’اور اپنے گھروں میں جم کر بیٹھی رہو‘‘ سے زوجات کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی، صرف نسبت ثابت ہوتی ہے چونکہ دیگر آیات و احادیث میں ان گھروں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ملکیت ہونے کا بیان ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنۡ یُّؤۡذَنَ لَکُمۡ۔۔۔۔ (۳۳ احزاب: ۵۳)

اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں داخل مت نہ ہونا مگر یہ کہ تمہیں اجازت دی جائے۔۔۔۔

اور حدیث میں ہے:

مَا بَیْنَ بَیْتِی وَ مِنْبَرِی رَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ۔۔۔۔ (الکافی ۴: ۵۵۴)

میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔

iv۔ تاریخ انبیاء میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ انبیاء علیہم السلام نے اپنی اولاد کو وارث نہ بنایا ہو۔ قرآن سے تو ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی اولاد وارث بنتی تھیں۔

v۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی بیٹی سے یہ مسئلہ بیان نہیں فرمایا ہو گا جب کہ وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ۔ (۲۶ شعراء: ۲۱۴) کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر واجب ہے کہ اپنے قریبی ترین رشتہ داروں کو احکام خداوندی بتا دیں۔

vi۔ کوئی اگر نبی کے وارث نہیں بن سکتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس اہم مسئلہ کو اس کے متعلقہ افراد حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا، حضرت علی علیہ السلام، حضرت ابن عباس سے بیان فرماتے۔

vii۔ اگر ہم اس حدیث کو درست فرض کر لیں تو عبارت اس طرح ہو سکتی ہے: لا نورث ما ترکناہ صدقۃ۔ اس میں صدقۃ حال ہے ماء موصولہ کا یعنی جو چیز ہم بطور صدقہ چھوڑ جاتے ہیں اس کے ہم کسی کو وارث نہیں بناتے۔

یہاں اس توجیہ پر ایک سوال آتا ہے کہ جو مال انسان بطور صدقہ (وقف) چھوڑ جاتا ہے وہ سب کے لیے ہے کہ اس کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ اس میں انبیاء علیہم السلام کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ جواب دیا گیا ہے: خصوصیت یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام جس چیز کو صدقہ کرنے کا عزم کرتے ہیں وہ وراثت میں نہیں آتی جب کہ دوسرے لوگوں کے لیے صیغۂ وقف جاری کرنا ضروری ہوتا ہے، صرف عزم اور وعدہ کافی نہیں ہے۔

یہی معنی امام شمس الدین سرخسی نے بھی سمجھا ہے۔ چنانچہ اپنی کتاب المبسوط باب الوقف میں حدیث کے مذکورہ معنی کرنے کے بعد مذکورہ سوال کا جواب دیتے ہیں:

فعلی ھذا التاویل فی الحدیث بیان ان لزوم الوقف من الانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام خاصۃ بناء علی ان الوعد منہم کالعھد من غیرھم۔

حدیث کی اس تاویل کی بنا پر یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی طرف سے وقف کے نافذ اور ناقابل تنسیخ ہونے میں یہ خصوصیت ہے کہ ان کی طرف سے صرف وعدے پر وقف لازم ہو جاتا ہے کہ ان کا وعدہ دوسروں کے معاہدے کی طرح ہے۔

ہم نے امام سرخسی کی پوری عبارت سورہ مریم آیت ۶ کے ذیل میں درج کی ہے۔

قاضی عیاض نے اپنی معروف کتاب الالماع صفحہ ۱۵۱ پر بحث کی ہے کہ اس حدیث میں لفظ صدقۃ بالرفع پڑھا جائے یا بالفتح ۔ (چونکہ بالرفع یعنی: صدقۃٌ پڑھنے کی صورت میں حدیث کے معنی یہ ہوں گے: جو ہم چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے، وراثت نہیں۔ اور بالفتح یعنی صدقۃً پڑھنے کی صورت میں حدیث کے معنی یہ ہوں گے: جو ہم صدقہ کے طور پر چھوڑ جاتے ہیں اس میں وراثت نہیں ہے۔)


آیت 7