آیت 6
 

وَ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ مِنۡہُمۡ فَمَاۤ اَوۡجَفۡتُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ خَیۡلٍ وَّ لَا رِکَابٍ وَّ لٰکِنَّ اللّٰہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۶﴾

۶۔ اور ان کے جس مال (فئی) کو اللہ نے اپنے رسول کی آمدنی قرار دیا ہے (اس میں تمہارا کوئی حق نہیں) کیونکہ اس کے لیے نہ تو تم نے گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ، لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غالب کر دیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔

تشریح کلمات

اَفَآءَ:

( ف ی ء ) الفیٔ کے معنی اچھی حالت کی طرف لوٹ آنے کے ہیں۔ حتی الفیٔ الی امر اللّٰہ یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ اسلامی اصطلاح میں فیٔ اس مال کو کہتے ہیں جو کفار سے مسلمانوں کے ہاتھ میں آئے۔ یعنی بہ حقدار رسید کے عنوان سے اس مال کو فیٔ کہتے ہیں۔ چنانچہ فیٔ غنیمت اور انفال ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ چنانچہ سورہ احزاب آیت ۵۰ میں فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحۡلَلۡنَا لَکَ اَزۡوَاجَکَ الّٰتِیۡۤ اٰتَیۡتَ اُجُوۡرَہُنَّ وَ مَا مَلَکَتۡ یَمِیۡنُکَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلَیۡکَ۔۔۔۔

اے نبی! ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ بیویاں حلال کی ہیں جن کے مہر آپ نے دے دیے ہیں اور وہ لونڈیاں بھی جو اللہ نے (بغیر جنگ کے) آپ کو عطا کی ہیں۔

اس آیت میں غنیمت میں آنے والی کنیزوں کے لیے بھی لفظ اَفَآءَ، فیٔ استعمال کیا گیا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ: پہلے ذکر ہو گیا فیٔ مطلق آمدنی کو کہتے ہیں۔ آگے اس آمدنی کی چند ایک صورتیں بن جاتی ہیں۔ ہر صورت کا حکم الگ ہے۔

۲۔ اگر یہ آمدنی غیر مسلموں سے بغیر جنگ کے ہاتھ آ گئی ہے تو یہ آمدنی صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خصوصی ملکیت ہو گی۔ چنانچہ اس آیت کا یہی موضوع ہے اور شان نزول بنی نضیر کے اموال ہیں جو بغیر جنگ کے ہاتھ آ گئے تھے۔ یہ بات علم تفسیر میں ایک مسلمہ ہے: العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب۔ لفظ کے عموم کا اعتبار کیا جاتا ہے سبب نزول کی خصوصیت کا نہیں۔

چنانچہ آیت میں اَفَآءَ ’’آمدنی بنائی‘‘ کی تعبیر کے ساتھ وَّ لٰکِنَّ اللّٰہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غالب کر دیتا ہے کی تعبیر میں تصریح ہے کہ جو مال بغیر جنگ کے ہاتھ آتا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتی ملکیت ہو جاتا ہے۔

قرآن کے قائم کردہ اس کلی حکم کے تحت اموال بنی نضیر، قریظہ، فدک، خیبر، عرینہ، ینبع، الصفراء اور وادی القری وغیرہ کی املاک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتی ملکیت تھیں۔ اموال بنی نضیر کا جو ذکر روایات میں ملتا ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ملکیت ہیں وہ بطور نمونہ و مثال ہے، بطور حصر نہیں ہے۔

چنانچہ حضرت عمر کا یہ قول مشہور ہے:

کانت اموال بنی النضیر مما افاء اللّٰہ علی رسولہ مما لم یوجف المسلمون علیہ بخیل ولا رکاب فکانت لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم خاصۃ ینفق علی اھلہ منھا۔ ( صحیح بخاری، صحیح مسلم، ترمذی، ابوداد اور نسائی )

بنی نضیر کے اموال ان اموال میں سے تھے جنہیں اللہ نے اپنے رسول کے لیے آمدنی بنایا۔ جن پر نہ تو مسلمانوں نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ۔ پس یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خاص ملکیت تھی جسے اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے تھے۔

امام فخر الدین رازی اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:

مفسرین نے یہاں دو صورتیں بیان کی ہیں: پہلی صورت یہ ہے کہ یہ آیت بنی نضیر کے بارے میں نازل نہیں ہوئی چونکہ اس میں مسلمانوں نے گھوڑے دوڑائے تھے اور اونٹ بھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کر لیا تھا بلکہ یہ آیت فدک کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ اہل فدک، فدک خالی کر کے نکل گئے تھے۔ اس لیے فدک کی بستی اور اموال، جنگ کے بغیر رسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ آ گئے۔ چنانچہ رسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام فدک کے غلہ سے اپنا اور اپنے اہل و عیال کا خرچہ لیتے تھے اور باقی اسلحہ اور سواری کے جانوروں پر خرچ کرتے تھے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ یہ آیت بنی نضیر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

بلاذری نے فتوح البلدان صفحہ ۳۶ میں لکھا ہے:

خیبر سے واپسی کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے محیصۃ بن مسعود انصاری کو اہل فدک کی طرف اسلام کی دعوت دینے کے لیے بھیجا۔ اہل فدک کے یہودی رئیس کا نام یوشع بن نون تھا۔ ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ فدک کی نصف زمین پر مصالحت کی پیش کش کی جو قبول کی گئی:

فکان نصف فدک خالصاً لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لانہ لم یوجف المسلمون علیہ بخیل ولارکاب۔

لہٰذا نصف فدک خالص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو گا چونکہ اس پر مسلمانوں نے نہ گھوڑے دوڑائے، نہ اونٹ۔

دوسری روایت میں یہ واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے:

جب خیبر کے کچھ لوگوں نے، جو قلعہ میں پناہ لے کر باقی رہ گئے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مصالحت کی درخواست کی کہ انہیں قتل اور قید نہ کیا جائے اور اہل فدک نے جب یہ سنا تو انہوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مصالحت کر لی۔ ( الخمیس ۲: ۶۴۔ تاریخ کامل ابن اسیر ۲:۸۵۔ تاریخ ابوالفداء ۱:۱۴۸۔ روض الانف ۲: ۴۰۸)

دوسری صورت کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ تقریباً تمام مفسرین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اموال بنی نضیر کو پانچ حصوں میں تقسیم نہیں فرمایا جو باقی اموال غنیمت کا حکم ہے۔

دوسری صدی کے مفسر ابو ذکریا یحییٰ بن زیاد فراء اپنی تفسیر معانی القران میں اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:

کان النبی صلی اللہ علیہ قد احرز غنیمۃ بنی النضیر و قریظۃ و فدک فقال الرؤساء خذ صفیک من ھذہ و افردنا بالربع فجاء التفسیر ان ھذہ قری لم یقاتلوا علیھا بخیل و لم یسیروا الیھا علی الابل انما مشیتم الیھا علی ارجلکم۔۔۔۔

نبی صلی اللہ علیہ نے بنی نضیر، قریظۃ اور فدک کی غنیمت حاصل کی تو رئیسوں نے کہا: اس میں سے سرداروں کو جو حصہ ملا کرتا ہے وہ آپ رکھ لیں باقی چار حصے ہمارے لیے کر دیں۔ اس پر یہ تفسیر آ گئی کہ ان بستیوں میں گھوڑوں کے ساتھ کوئی لڑائی نہیں ہوئی اور نہ ان بستیوں کی طرف اونٹوں پر چلے ہیں بلکہ تم اپنے پیروں پر چل کر گئے ہو۔۔۔۔


آیت 6